لندن (ویب ڈیسک) برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس رواں برس جوئے کی لت کے شکار نوجوان افراد کے لیے اپنا پہلا کلینک کھول رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جوئے میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اس کی لت لگ جاتی ہے۔ نیشنل پرابلم گیمبلنگ کلینک نامی اس ادارے کے ذریعے 13 سے 25 سال کی عمر کے لوگوں کی مدد کی جائے گی۔ لیکن آخر جوا کھیلنے میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اس کی لت لگ جاتی ہے اور اس کے حل کے لیے لوگوں کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں پرانے وقتوں پر نظر ڈالنی پڑے گی جب انسان جانوروں کا شکار یا پہلے سے موجود خوراک اکٹھی کیا کرتے تھے، اور ہمارا واحد کام زندہ رہنا تھا۔ لندن کے نائٹنگیل ہسپتال میں مختلف لتوں کا علاج کرنے والے ماہر ڈاکٹر سائرس اباسیئن کا کہنا ہے کہ ‘آسان لفظوں میں اسے ایسے سمجھایا جاسکتا ہے کہ ہمارا دماغ اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ انعام کا متلاشی رہتا ہے۔‘ ان کے مطابق یہ انعام دماغ میں ڈوپمین نامی ایک کیمیکل کی شکل میں ملتا ہے جو ہمیں خوشگوار احساس دیتا ہے۔ ‘جوا کھیلنے سے دماغ کے اس حصے پر اثر پڑتا ہے جو ارتقائی پہلو سے دیکھا جائے تو کم جدید ہے اور جو زیادہ تر فوری طور پر ملنے والے فائدے کی طرف مائل ہوتا ہے۔’ ‘پرانے وقتوں میں ایک بڑے جانور کے شکار سے ہمیں جذباتی خوشی ملتی تھی، اور اس کی مدد سے ہم پورے خاندان کے کھانے کا بندوبست کر سکتے تھے۔’ ڈاکٹر اباسیئن کے مطابق شراب، منشیات یا جوئے کی لت کی وجہ سے جزا کا یہ نظام خراب ہوجاتا ہے۔’ہم اب بہت مصنوعی ماحول میں رہتے ہیں۔ ہم کاریں چلانے یا جہاز اور ٹرین پر سفر کرنے کے لیے نہیں بنے ہوئے۔”دماغ کا وہ پرانا حصہ ابھی بھی وہیں موجود ہے اور زیادہ سوچے سمجھے بغیر فوراً ملنے والے انعام کی سوچ بھی وہیں موجود ہے اور شراب، تمباکو، جوے یا گیمنگ سے منسلک کمپنیاں اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں۔’اسی طرح جب ہم جوئے میں جیتتے ہیں تو ہمارے دماغ کو وہی جذباتی خوشی یا انعام ملتا ہے۔کئی لوگ ڈوپمین کا خوشگوار احساس حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگیوں میں واپس چلے جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسا نہیں کر پاتے۔’جب لوگوں کو جوئے کی لت لگ جاتی ہے تو ان کے لیے معمول کی چیزیں خوشی کا باعث نہیں بنتیں اور پھر وہ اس خوشگوار احساس کے لیے جوا کھیلتے ہیں۔ یہ خوشگوار احساس ہم جیسے عام لوگوں کو قدرتی طور پر میسر ہوتا ہے۔’اور کیونکہ یہ دماغی عمل ہے اس لیے لت لگنا ایک خاندانی رویہ بھی ہوسکتا ہے۔ ‘لازم ہے کہ اس میں جینیاتی عمل دخل بھی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ جینیاتی اثر و رسوخ کی وجہ سے فوری طور پر ملنے والی خوشی کو ترجیح دیتے ہیں۔’29 سالہ جیمز گرائمز نے اپنی زندگی کی ایک دہائی جوئے کی لت میں گزاری ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر اباسیئن کی وضاحت سے مکمل اتفاق کیا۔’آپ وقتی طور پر ملنے والے زبردست احساس اور توانائی میں کھو جاتے ہیں۔ میں کبھی کبھار اسے جسمانی تجربے سے بالاتر سمجھتا ہوں۔ یہ تمام عقلی اور منطقی فیصلہ سازی سے ماورا ہے۔’ان کے مطابق ‘ہار کبھی بھی اتنی بری نہیں لگتی جتنا مزا جیت سے ملتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جوئے کے کاروبار سے منسلک کمپنیاں یہ جان بوجھ کر کرتی ہیں۔’انھیں ایسے نفسیاتی طریقے معلوم ہیں جن سے وہ کمزور لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔’برطانیہ میں جوئے کے کاروبار کی نگرانی کرنے والی گیمبلنگ کمیشن نے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ لوگوں کی مدد اور علاج کے لیے سہولیات آسانی سے میسر ہوں۔