ممبئی: بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے قانون سے متعلق متنازع عدالتی فیصلے کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔
دلت تنظیموں کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ’بھارت بند‘ ہڑتال کے دوران کئی شہروں میں حالات کشیدہ ہوگئے۔ کاروبار، تعلیمی ادارے اور ٹرانسپورٹ مکمل طور پر بند ہے۔ مشتعل افراد سڑکوں پر نکل آئے اور جلاؤ گھیراؤ پتھراؤ شروع کردیا۔ میرٹھ میں ایک تھانے اور کئی گاڑیوں کو جلا دیا گیا، پٹنا میں مختلف مقامات پر ٹرینیں روکی گئیں۔
گوالیار شہر میں بگڑتی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے انٹرنیٹ، موبائل اور ٹی وی نشریات پر پابندی کے علاوہ شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا جب فوج کو بھی ہائی الرٹ کردیا گیا۔
اقلیتوں کو مظالم سے بچانے کے ایکٹ (1989 ظلم کی روک تھام کے تحت گرفتاریوں اور مقدمات کے اندراج پر بھارتی سپریم کورٹ نے پابندی عائد کردی ہے۔ اس پر بھارت میں نچلی ذات تصور کیے جانے والی دلت قوم میں بے چینی اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ دلتوں کی نمائندگی کرنے والی تقریباً تمام ہی جماعتوں نے عدالتی فیصلے کے خلاف صوبے بھر میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔ بھارتی حکومت نےسپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کردی ہے۔
اتر پردیش کے سیاحیت مقام گوالیار میں جاری احتجاج کے دوران حالات کشیدہ ہو گئے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت نے نہ صرف یہ کے انٹرنیٹ، موبائل اور ٹی وی نشریات بند کردی ہیں بلکہ شہر میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔ اب تک کی موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گوالیار میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں 4 شہری ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے پٹیشن دائر کردی گئی ہے جس کے بعد مظاہرین کو پُر امن طور پر منتشر ہو جانا چاہیے تھا لیکن اب بھی لدھیانہ سمیت پنجاب کے دیگر علاقوں میں پُر تشدد ہنگاموں کا سلسلہ جاری ہے جس کے دوران 15 بسوں کو نذر آتش کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 20 مارچ کو بھارتی سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے لیے نافذ کیے گئے ایکٹ 1989 کے تحت خودکار گرفتاریوں اور مقدمات کے اندراج پر پابندی عائد کردی تھی۔ دلت سمیت اقلیتی برادریوں نے اس پابندی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔