کسی خاتون کو مرد کی طرف سے فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ موصول ہونا، کس حد تک ہراساں کرنےکا اقدام ہو سکتا ہے یہ طے کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ تاہم گزشتہ چند روز سے ایک ٹویٹ کرنے پر پاکستان کی دو بار آسکر انعام یافتہ فلم ساز شرمین عبید چنائے پر سوشل میڈیا پر موجود مرد حضرات نے جس طرح تنقید کی ہے، وہ ضرور جنسی ہراسگی کے زمرے میں آتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم کسی بھی موضوع کی حمایت اورمخالفت میں شدت کی حد تک چلے جاتے ہیں جبکہ معاملے کی حساسیت کو کسی طور بھی نہیں پرکھتے۔
سوشل میڈیا پر اپنے اوپر ہونے والی تنقید سے شرمین اس حد تک متاثر ہوئیں کہ انہوں نے اپنی ٹویٹ کے حق میں ایک اور لمبی چوڑی وضاحتی ٹویٹ کر دی۔ اس ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ اُس واقعے کے بعد وہ شدید غصے میں تھیں تو اپنی ٹویٹ میں مکمل طور پر بات نہیں سمجھا سکیں۔ ہم میں سے کوئی بھی ان کی جگہ ہوتا تو شاید ایسے ہی ردعمل کااظہار کرتا۔
یہاں پر میرا مقصد ان کے ٹویٹ کو درست ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ تمام صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے معاشرے کے اجتماعی طرزِ عمل میں خرابی کی نشاندہی کرنا ہے۔ شرمین عبید چنائے نے بھی یہی غلطی کی جس کا بعد میں انہوں نے اقرار بھی کیا۔
چند روز قبل شرمین عبید چنائے نے ٹوئٹر اور فیس بک پر پوسٹ شیئر کی تھی جہاں انھوں نے اپنی بہن کے ساتھ کراچی کے معروف آغا خان ہسپتال میں ہونے والے واقعے کا ذکر کیا تھا۔ شرمین عبید کے مطابق اُن کی بہن ہسپتال میں اپنے طبی معائنے کیلئے گئی تھیں۔ اُن کی بہن کا معائینہ کرنے والے ڈاکٹر نے بعد میں انھیں فیس بک پر دوست بننے کی پیشکش بھیج دی۔
ٹوئیٹر پر جاری بیان میں شرمین عبید نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے اس موضوع پر بحث خواتین کے تحفظ، غیر اخلاقی اور بے لگام انداز میں ہراساں کرنے کی حرکات سے بہت دور چلی گئی ہے۔ انہوں نے غصے میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ان سے کچھ لوگ مایوس ہوئے ہیں اور وہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ غصے اور جوش میں انہوں نے غلط الفاظ چنے تھے۔
انھوں نے اپنے وضاحتی ٹویٹ میں یہ بھی لکھا کہ اُن کے ٹویٹ میں ’غلط فیملی کی غلط خواتین‘ کے الفاظ کا مقصد ہرگز طاقت یا استحقاق کی جانب اشارہ نہیں تھا بلکہ اُن کا اشارہ ایسی خواتین کی طرف تھا جو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی رکھتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’اس کیس میں ایک اجنبی ڈاکٹر جو کہ ایمرجنسی روم میں کام کر رہا تھا، جس سے طبعی معاملے کے علاوہ کوئی بات چیت نہیں کی گئی، اسے وارڈ میں ایک انتہائی ذاتی طبعی معائنے کی ذمہ داری دی گئی۔ اس معائنے کے بعد اس نے مریض کو سوشل میڈیا پر ڈھونڈا، مریض کی تصاویر پر رائے دی اور فیس بک پر ان سے دوستی کرنے کی کوشش کی۔‘ڈاکٹر کے خلاف کارروائی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر کے خلاف جو کارروائی بھی ہو رہی ہے وہ ہسپتال کی آزادانہ تفتیش کا نتیجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا ’ڈاکٹر کی کوشش کو منظرِ عام پر لانے کے میرے طریقے سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ شعبہِ طبعیات اور سوشل میڈیا کی حدود پر بحث کر سکتے ہیں۔ میرے انداز اور لہجے پر سوال اٹھا سکتے ہیں مگر حقیقت میں جو ہوا وہ مریض کے ڈاکٹر پر اعتماد کو ٹھیس پہچاتا ہے، اور پیشہ وارانہ ضوابط کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔ ڈاکٹر کا یہ فعل ہراسگی کے زمرے میں آتا ہے اور اِس پر اپنی آواز بلند کرنا شرمین اپنا حق تصور کرتی ہیں۔
اس ساری بات کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ شرمین عبید چنائے کا اِس سارے واقعے پر ردعمل فطری تھا۔ اگر انتہائی ذاتی نوعیت کا معائینہ کرنے والا ڈاکٹر دوسرے ہی روز مریض کو فیس بک پر ڈھونڈ کر اُس کی تصاویر پر کمنٹ کرے اور دوستی کرنے کی خواہش کااظہار کرے تو غصہ آنا تو فطری بات ہے۔ تاہم شرمین اپنے غصے کا اظہار زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتی تھیں۔ شرمین جیسی خواتین جو معاشرے میں مثبت تبدیلی کا علم بلند کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، انہیں اس طرح کے معاملے میں بہت محتاط ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی معاشرے کو تبدیل کرنے کا ہنر رکھتی ہیں۔