کوئی یقین کرے گا کہ امریکہ جیسا ملک صرف دو سو چالیس سال پرانا ہے۔ساری دنیا پر چھائے ہوئے اس ملک کی تاریخ شروع ہوئے ابھی ڈھائی سو سال بھی نہیں ہوئے ہیں۔اس دوران اس ملک نے اپنے چوالیس صدر چنے جو سارے کے سارے مرد تھے۔ اسی لئے لوگ امریکہ کو مادرِ جمہوریت کہتے ہیں لیکن میں پدرِ جمہوریت کہتا ہوں۔کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ ایک زمانے کو جمہوریت کا درس دینے والا ملک ہمیشہ مردو ں اور عورتوں میں تفریق کرتا رہا۔ آزادی کی جس دستاویز پر امریکی معاشرے کی بنیاد رکھی ہے، اور جو انگریزی زبان میں ہے، اس میں لکھا ہے کہ سارے مردوں برابر ہیں۔ اس کا ایک ترجمہ تو یہ ہوا کہ سارے مرد برابر ہیں۔ لیکن امریکہ والے اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ سارے لوگ برابر ہیں۔ یہ ان کی مرضی، ہماری زبان ہوتی تو اپنا فیصلہ سناتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مختصر سی تاریخ میں امریکہ میں سنہ اٹھارہ سو ستاسی میں پہلی بار ایک خاتون کسی شہر کی میئر منتخب ہوئی تھیں۔ وہ بھی خدا جانے کیونکر منتخب ہوگئیں کیونکہ اُس وقت تک ملک میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ہی نہیں تھا۔اس تاریخی انتخاب کے تقریباً تیس سال بعد امریکی خواتین کو ووٹ کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ اس دوران دنیا امریکہ سے جمہوریت کا درس لیتی رہی اور یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ اسی دوران دنیا کے چالیس سے زیادہ ملکوںمیں چھپّن خواتین حکمراںمنتخب ہوئیں۔ اس راہ میں سری لنکا، بھارت اور اسرائیل نے پہل کی۔یہ بات سنہ ساٹھ کے عشرے کی ہے۔ سنہ اناسّی میں خاتونِ آہن، مارگریٹ تھیچر، جو ایک دکان دار کی بیٹی تھیں، برطانیہ عظمیٰ کی وزیر اعظم ووٹوں سے منتخب ہوئیں حالانکہ وہ کہہ چکی تھیں کہ انہیں کسی عورت کے وزیر اعظم بننے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ وہ ایسی دبنگ پرائم منسٹر بنیں کہ تاریخ انہیں بہت عرصے یاد رکھے گی۔ اس کے بعد یورپ ہی کے ملک ناروے کے عوام نے تین بار خاتون وزیر اعظم چنیں اور سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں ایسا فلاحی نظام رائج ہے کہ دیکھا ہی کیجئے۔جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور جہاں خاتون کو حکمرانی سونپی گئی ان میں پاکستان اور بنگلہ دیش ہی کے نام نمایاں ہیں۔ اس کے بعد تو یہ ہو ا کہ ساری دنیا ہی میں عورتیں حکومتوں کی سربراہ بنیںان میں کئی افریقی ملک اور تھائی لینڈ سرِ فہرست ہیں۔
اور گئے دنوں کی تو بات ہی کیا تھی۔ جب تک یہ جمہوریت کا قصہ نہیں ہوا تھا، خواتین نے خوب خوب راج کیا۔تاریخ ایسی عورتوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے جنہوں نے رج کر راج کیا اور تاریخ کے ورق پر اپنا نام پتہ چھوڑ کر گئیں۔ یہ کام یو ں تو یونان و مصر و روما میں بہت ہوا لیکن ہماری سرزمین پر کئی خواتین یا تو سامنے آکر یا پردے میں رہ کر ایسی ایسی دھاک جماکر گئیں کہ زمانہ انہیں کبھی نہیں بھولا۔مغل بادشاہ جہاں گیر کو تخت پر بٹھا کر اور خود پیچھے رہ کر نورجہاں نے ہندوستان جیسے ملک پر کمال کی فرماں روائی کی۔ اس کے بر عکس چہرے سے نقاب الٹ کر جو کارنامے رضیہ سلطانہ نے انجام دئیے، تاریخ میں لکھے گئے لیکن ہم انہیں بھولتے جارہے ہیں۔مرد کی طرح جینے کا اتنا اشتیاق تھا کہ اپنے نام میں سلطانہ کو بدل کر سلطان کردیا۔وہ التمش کی بیٹی تھی اور باپ نے بچپن ہی سے اس کی تربیت کی تھی۔ چنانچہ باپ کی وفات کے بعد جب وہ دلّی کے تخت پر بیٹھی تو اس نے عوام کے دل جیتنے کے لئے بے شمار فلاحی کام کئے۔میدان جنگ میں مردوں کی طرح لڑتی تھی اور وہ بھی اپنے چہرے سے نقاب الٹ کر۔ مگر امراء اور رؤسا کو عورت کی حکمرانی منظور نہ تھی۔ وہ اپنے ایک سیاہ فام غلام یاقوت کی طرف مائل تھی۔دو محبت کرنے والے دنیا کی نگاہوں میں کھٹکتے ہیں، یہی معاملہ رضیہ کے ساتھ پیش آیا۔رضیہ کو درباری سازشوں کے نتیجے میں مار دیا گیا۔ تاریخ نے اسے اس کی خوبیوںکی وجہ سے یاد رکھاالبتہ اب اس کے نشان نہیں ملتے۔یہ بھی یقین نہیں کہ کہاں کہاں دفن ہے۔راجپوتانے میں دو قبریں ہیں جو رضیہ کی نسبت سے مشہور ہیں۔ پرانی دلّی کی تنگ و تاریک گلیوں کی ایک مسجد میں دو قبریں ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان میں رضیہ اور اس کی بہن شازیہ دفن ہیں۔ لوگ انہیں رجّی اورشجّی کی قبریں بتاتے ہیں۔ رضیہ اور شازیہ کے ناموں کا یہ حشر ہوا۔
خاتون حکمرانوں میں ایک بڑا نام جھانسی کی رانی کا ہے۔اس نے بھی تاریخ میں بڑا نام پایا اور وہ انگریزوں کے تسلّط کے خلاف اور آزادی کے حصول کی جدوجہد کی علامت ٹھہری۔ مہارانی لکشمی بائی نہ صرف خاتون حکمراں ہونے کی وجہ سے مشہور ہے بلکہ اس کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ میدان جنگ میں لڑتے ہوئے مری۔ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر انگریزوں کی فوج سے لڑرہی تھی کہ تلوار کا گھاؤ لگنے سے زخمی ہو کر گر پڑی اور کسی انگریز نے اس کو گولی ماردی۔
خاتون حکمرانوں کی بات چلی ہے تو ایک بالکل تازہ واردات قابلِ ذکر ہے اور وہ ہے جنوبی کوریا کی صدرپارک گی یون ہائی کے خلاف عوام کی یورش۔ پچھلے دنوں دارالحکومت سیئول میں حالیہ برسوں کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا۔ ایک لاکھ افراد ہاتھوں میں شمعیں اٹھائے ایوان صدر کی طرف چلے۔ جنوبی کوریا میں روایت یہ ہے کہ ہر صدر اپنی پانچ برس کی میعاد پوری کرتا ہے۔لیکن اس بارعوام نے خاتون صدر کو وقت سے پہلے رخصت کرنے کی ٹھانی ہے۔صدر پر بہت سے الزام لگے ہیں۔ سارے کے سارے جانے پہچانے ہیں۔ ایک تو بد انتظامی کا الزام ہے جس میں کوئی صاحب جو صدر کے پرانے دوست ہیںجنہوں نے اس دوستی کے نام پر بہت کچھ سمیٹا ہے۔ یہی نہیں، کارِ سرکار میں دخل بھی دینا شروع کردیاہے۔ اب صدر پارک وہی جانا پہچانا اعلان کررہی ہیں کہ تفتیش ہوگی۔اسی دوران میں بڑے بڑے سرکاری راز کھلے ہیں جس پرکوریائی عوام مشتعل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدرنے رشتے داروں اور دوستوں پر عنایات کی بارش کر کے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور اپنی حکومت کو رسوا کیا ہے۔ رائے عامہ کے جو گوشوارے جاری ہوئے ہیں ان کے مطابق صدر کو صرف پانچ فیصد کی حمایت حاصل ہے جو بیس تیس برسوں میں سب سے کم ہے۔
احتجاج کے روز سیئول میں بیس ہزار سپاہی تعینات کئے گئے اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ ایوان صدر کو جانے والے راستوں پر پولیس والے دیوار بن کرکھڑے ہوئے۔ خبر ہے کہ مجمع پر تیز دھار پانی بھی پھینکا گیا۔
لوگوں کا اشتعال کم کرنے کے لئے صدرپارک نے اپنے کئی مشیروں کو بر طرف کیا ہے اور ایک سابق مشیر کو گرفتار کیا ہے۔ اس کے بارے میں خیال ہے کہ اس نے حکومت کی خفیہ معلومات کا راز فاش کیا۔ جنوبی کوریا کی تاریخ میں ملک کے ہر سربراہ نے اپنی معیاد پوری کی لیکن اس بار خاتون صدرپر شدید دباؤ ہے کہ وہ ملک اورقوم کا پیچھا چھوڑیں اور اپنے گھر جائیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ جنوبی کوریا ہمارے نہ لینے میں نہ دینے میں، وہاں جو کچھ ہورہا ہے ہمیں اس سے کیا۔ مگر پھر یہ کیا ہے کہ ہم وہاں کے اس معاملے کو اتنے غور سے دیکھ رہے ہیں اور یہ جاننے کے لئے بے چین ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور بیٹھے گا بھی یا نہیں۔ ہمارے ہاں تو سینہ تان کرکھڑا ہی رہتا ہے۔