اسی طرح میاں بیوی کے درمیان علیحدگی یا طلاق کا معاملہ ہو یا طلاق کے بعد نان نفقہ، وراثت اور اولاد سے جڑے معاملات کی پچیدگی ہو قرآن میں مفصل انداز سے درج ہے اور یہ وہ پچیدہ مسائل ہیں جسے جدید دنیاوی قوانین اور عدالتی نظام بھی نبھاتے ہوئے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مسئلہ حلالہ ہے شریعت کی رو سے اگر میاں بیوی میں طلاق واقع ہوجائے تو دونوں میں رجوع کی صورت حلالہ رہ جاتی ہے، حلالہ اس صورت حال کا نام ہے جب مطلقہ بیوی کسی اور شخص کے نکاح میں بندھ جائے اور پھر کسی ناگہانی اور غیر متوقع طور پر دوسرے شوہر سے بھی طلاق ہوجائے یا وہ انتقال کرجائے تو ایسی صورت میں عورت اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ کچھ ناعاقبت اندیش لوگ حلالہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور حلالہ کے نام پر نہ صرف یہ کہ جعلی شادیوں اور معینہ مدت کے نکاح کرائے جا رہے ہیں بلکہ اس کام کے لیے طے شدہ رقم بھی بٹوری جا رہی ہے۔انٹرنیٹ کی سہولیات کے عام ہونے کے بعد سے کاروباری ذہنیت رکھنے والے ایسے لوگوں نے آن لائن حلالہ کے نام پر معصوم خواتین کو اپنے شکنجے میں پھانس کر قابل اعتراض کام کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور اس کے پیسے بھی وصول کیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعہ برطانیہ میں مقیم فرح نامی خاتون کے ساتھ پیش آیا جنہیں ان کے غصیلے اور تشدد پسند شوہر نے معمولی جھگڑے کے بعد تین طلاقیں دے دیں جس پر خاتون نے علیحدگی اختیار کر لی لیکن شوہر کی ندامت اور ضد کی وجہ سے دوبارہ رجوع کرنے پر رضامند ہو گئیں۔ انہوں ںے اس مسئلے کے حل کے لیے سماجی ربطے کی ویب سائٹ پر ایک شخص سے رابطہ کیا جو خواتین کو حلالہ کی سہولت فراہم کرنے کا دعوی دار تھا۔مذکورہ شخص نے فرح کو اپنے پہلے شوہر سے رجوع کرنے کے لیے حلالہ کرانے کا راستہ بتایا اور اس کے لیے اپنے آپ کو رقم کے عوض پیش کیا تاہم خاتون نے اس طریقہ کار کو اپنانے سے انکار کردیا اور اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کیا جہاں عالم دین نے ’’ مذکورہ طریقہ حلالہ‘‘ کو حرام قرار دیا۔ فرح نے برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے کو بتایا کہ ایسی کئی خواتین ہیں جو یہ طریقہ کار اپنانے پر مجبور ہوئیں اور اپنے آپ کو اس شخص کے بتائے ہوئے طریق پر کار بند کیا جہاں ان خواتین کے ساتھ دیگر لوگوں نے بھی زیادتی کا عمل کیا لیکن اب وہ خواتین خوف اور عزتیں پامال ہونے کے ڈر سےاس گھناؤنے عمل کو منظر عام پر لانے سے قاصر ہیں۔ تاہم جب اس شخص سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا پر یہ صفحہ محض طبع مزاح کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اس سارے افسانے میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ اس نے کسی خاتون کو حلالہ کی پیشکش کی ہے۔ مذکورہ شخص کی وضاحت اپنی جگہ مگر خاتون کے دلائل زیادہ پختہ نظر آتے ہیں اور اسی سے ملتے جلتے کئی اور واقعات بھی سننے میں آتے رہے ہیں جس پر علمائے کرام نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے مذموم کام کرنے والے لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ بی بی سے نے ابھی برطانیہ میں آن لائن حلال کے گھناؤنے کاروبار کی نشاندہی کی ہے تاہم دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ کام کھلم کھلا جاری ہے۔ پاکستان میں یہ کام آن لائن ہونے کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات موصول نہیں تاہم دیگر معاشرے میں حلالہ جان پہچان یا رقم کے عوض خاموشی کے ساتھ کیے جانے کی مصدقہ اطلاعات موجود ہیں۔