بحران ٹل گیا ، لگتا ہے گھڑ سواروں کو قرار کا حکم ملا ہے ۔ اقتدارکی غلام گردشوں میں سازش کرنے والے مگر باز نہیں آیا کرتے ۔معیشت دلدل میں ہے ،دشمن سرگرم،سرحدوں پہ دبائو،مہم جوئی سے مزید خرابی، مزید الجھائو ، مزید پریشانی ۔اقتدار کے بیماروں کو اللہ تعالیٰ صبرِ جمیل عطا کرے! بالکل مختلف پس منظر کے باوجود وزیرِاعظم فاروق حیدر اور عمران خاں میں کچھ مشابہت بھی ہے۔ دونوں اپنی ریاضت کے بل پر اٹھے اور لوہا منوایا۔ دونوں درمیانے طبقے سے۔ دونوں زندگیوں میں وسائل کا عمل دخل کبھی زیادہ نہ تھا۔ فاروق حیدر سادہ سے آدمی، خان صاحب ایک کرشماتی شخصیت ۔ ضد کے دونوں پکّے۔ خان صاحب ڈٹ جاتے اور نیا محاذ کھولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ راجہ فاروق حیدر کی خصوصیت بھی یہی ہے۔ حریف میسر نہ ہو تو ڈھونڈتے ہیں۔ عمران خان پہ ننھیال کا اثر زیادہ ہے۔ راجہ صاحب پہ مرحوم والد کا۔ وہ مظفر آباد کے راجپوت تھے، راجہ حیدر خاں۔ حکومتِ پاکستان کی ناراضی برداشت کی، جیلیں کاٹیں مگر ملک سے محبت بہت تھی۔ پاکستان کا ذکر ہمیشہ ’’وطنِ عزیز‘‘ کے الفاظ میں کرتے۔ چوہدری غلام عباس ایسی محبوب شخصیت کی موجودگی میں دو بار مسلم کانفرنس کے صدر رہے۔ ایک دوسرے کے خلاف بچگانہ بیان دینے کے بعد چند ماہ قبل دونوں کی ملاقات ہوئی۔ دوست دشمن انتظار میں تھے ، تاک میں تھے۔ تصویر میں فاروق حیدر ٹانگ پہ ٹانگ دھرے دکھائی دیے، جب کہ عمران خاں زیادہ مرتب اور آسودہ نظر آئے۔ کپتان نے اپنے مہمان سے کہا: جو بیت گیا سو بیت گیا۔ آپ کے بارے میں، پتہ کرایا تو معلوم ہوا کہ مالی بدعنوانی میں آپ کبھی ملوث نہیں رہے۔ اطمینان سے آپ اپنا کام کیجیے۔
ملاقات کے بعد راجہ کے ایک دوست نے ان سے پوچھا کہ وہ اس قدر تمکنت سے کیوں تشریف فرماہوئے۔ خلافِ معمول وہ خاموش رہے۔ کپتان ہی کی طرح گفتگو کے بہت شائق ۔ بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے حقوق کی جنگ کمال استقامت سے لڑی۔ اسی لیے سیاسی کارکنوں میں نسبتاً زیادہ مقبول ہیں۔ عمران خاں ہی کی طرح خود پہ اعتماد بہت ہے۔ مشورہ نسبتاً کم کرتے اور افسر شاہی پہ انحصار زیادہ ہے ۔ عمران خاں جیسے کانوں کے کچّے تو نہیں لیکن بھڑک اٹھتے ہیں۔ بہت اچھا کیا، دونوں نے احتیاط کی روش اختیار کی ۔ معاملات اب تک بخیر و خوبی چلتے رہے لیکن کچھ دنوں سے خرابی کا آغاز ہے ۔ انسان میں غلبے کی جبلت اور اقتدار کی بھوک اتنی شدید ہے کہ چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ ایک اعتبار سے آدمی کی پوری تاریخ اسی کشمکش کی تاریخ ہے۔ اب کی بار راجہ سکندر حیات اور شاہ غلام قادر زیادہ بے چین ہیں۔ پرسوں پرلے روز راجہ فاروق حیدر کی افطار پارٹی میں ارکانِ اسمبلی کی اکثریت کے علاوہ شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، احسن اقبال، مریم اورنگزیب اوراب بجھے بجھے رہنے والے پرویز رشید بھی شریک تھے ۔ کچھ لوگ نہیں آئے۔ شاہ غلام قادر تو خیر متوقع ہی نہیں تھے۔ 90 سالہ سکندر حیات اپنے گائوں میں پڑے ہیں ۔ ان کے فرزندفاروق سکندر بھی غائب تھے۔ چند اور وزرا بھی ،مصروفیت کا شکار یا اسے جواز بنانے والے۔ کل مگر ایک اور پیش رفت ہوئی۔
آزاد کشمیر کابینہ نے اتفاق رائے سے راجہ فاروق حیدر پہ اعتماد کا اظہار کردیا۔ اس میں سردار سکندر حیات کے لختِ جگر بھی شامل تھے۔ یوں سردار صاحب ناراض بہت ہیں۔ خود ان کی سگی ہمشیرہ کو انہیں منانے بھیجا گیا مگر من کر نہ دیے۔ شیر بوڑھا ہو گیا ہے مگر تیور وہی ہیں، عزائم اور امیدیں وہی جوانی مٹ گئی لیکن خلش درد محبت کی جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے راجہ فاروق حیدر کو رخصت کرنے کا بظاہر ایک ہی طریقہ ہے کہ پارٹی تقسیم ہو جائے۔ بعض کا خیال یہ ہے کہ بلوچستان کا تجربہ دہرایا جاسکتا ہے۔ ایک نئی پارٹی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن محدود ہے۔ تحریکِ انصاف کے دو، سردار عتیق کی مسلم کانفرنس کے تین اور پیپلزپارٹی کے چار۔اپوزیشن میں ہونے کے باوجود راجہ لطیف اکبر کی قیادت میں پیپلز پارٹی تبدیلی کی تائید نہیں کرے گی۔ سردار عتیق ہر اس شخص کی حمایت کریں گے ، جو راجہ صاحب کا بستر گول کر دے ۔ ان کے دل پر لگنے والا زخم بہت گہرا ہے۔ راجہ نے انہی سے قیادت چھینی ہے ۔ انہی کے خلاف بغاوت کر کے سردار سکندر حیات کی سرپرستی میں نون لیگ تشکیل دی تھی۔ پارٹی بن چکی تو دیر تک میاں محمد نواز شریف نے پارٹی کا لیڈر نامزد نہ کیا۔ وہ ہمارے دوست سابق اخبار نویس مشتاق منہاس کو قیادت سونپنے بلکہ شاید وزیرِاعظم بنانے کے آرزومند بھی تھے لیکن پھر طارق فاروق، شاہ غلام قادر اور راجہ فاروق حیدر سمیت دوسروں نے انہیں سمجھایا کہ یہ ممکن نہیں ہوگا ۔ایسا ہی ایک واقعہ 2006ء میں پیش آیا تھا، جب جنرل پرویز مشرف کے درباریوں نے شاہ غلام قادر کو وزیرِ اعظم بنانے کا خواب دیکھا۔ اس پرسردار سکندر حیات نے کہا تھا: کوہالہ کا پل پار کرانے کے لیے دو رجمنٹ فوج بھی اس کے ساتھ بھیج دیجیے گا۔ ہوش مندی غالب آئی اور فاروق حیدر چن لیے گئے ۔ اب کی بار بھی آزاد رو راجہ کو طوعاًکرہاًہی مانا گیا۔ حفیظ ؔ اہلِ زباں کب مانتے تھے بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں آزادکشمیر کے ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ کبھی وزارتِ امورِ کشمیر کے پاس ہوا کرتا ۔ صدر دفتر جس کا اسلام آباد میں تھا ۔ وفاقی وزیر من مانی کرتا، لوٹ مار الگ ۔نواز شریف کے دور میں فاروق حیدر کی کوششوں سے نہ صرف ترقیاتی بجٹ بڑھا بلکہ بیشتر اختیارات بھی مظفر آباد کو سونپ دیے گئے ۔ آزاد کشمیر حکومت عملاً اب پنجاب ، بلوچستان اور پختون خوا سے زیادہ خودمختار ہے ۔ چند ماہ قبل اطلاع دیے بغیر امورِ کشمیر کے وزیرعلی امین گنڈا پور مظفر آباد اور سرحدی علاقوں میں گئے تو یوسفِ بے کارواں تھے ۔ پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے۔ سکندر حیات کیوں ناراض ہیں ؟ راجہ فاروق حیدر سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں : میں فرمائشیں پوری نہیں کر سکتا۔ شاہ غلام قادر کے دل میں وزارتِ عظمیٰ کا خواب دیرینہ ہے ۔ پکتے پکتے حسرت اب پھوڑا بن چکی ، جو مرہم چاہتی ہے ۔ لگ بھگ ساٹھ برس کے ہو چکے۔ سوچتے ہوں گے ، اگلی حکومت تو تحریکِ انصاف کی ہوگی۔
کیا پوری طرح اقتدار آشنا ہوئے بغیر ہی دنیا سے چلا جائوں گا۔ ممنوعہ پھل کھانے کی خواہش آدمی میں ازل سے ہے ۔ سینئر نائب صدر طارق فاروق کو رنج یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ ان کی تجویز پر نہیں بنائی جاتی ۔ ہائوسنگ ہر چند اہم ہے لیکن وہ خزانہ ، بلدیات یا تعلیم چاہتے ہیں کہ مواقع ان میں زیادہ ہیں ۔ راولپنڈی میں اسٹیبلشمنٹ اور اسلام آباد میں عمران خاں کو اکسانے والے بہت ہیں ۔ گئے دن کھلاڑیوں کو یاد آتے ہیں، جب کشمیر کی وادیوں میں ہوا کا رخ ان کی آرزو متعین کرتی ۔ بگاڑ کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ سکندر حیات اور ان کے شہسوار تحمل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں اور نہ فاروق حیدر۔ ایک سب آگ ایک سب پانی دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں نون لیگ نے بڑے بڑے خواب دکھائے تھے۔ پرویز رشید نے کہا تھا : مریضوں کے لیے ہیلی کاپٹر سروس ہوگی ۔ نوازشریف کا وعدہ تھا کہ مظفر آباد تک ریلوے لائن بچھادوں گا، موٹروے بنا دوں گا۔ وعدے تو پورے نہ ہوئے لیکن عمومی طور پر فاروق حیدر مقبول ہیں ؛اگرچہ بہت بڑی کابینہ بنائی لیکن کرپشن کو حتی الامکان محدود رکھا۔ کام کاج ڈھنگ سے چلتا رہا ، چل رہا ہے ۔ بحران ٹل گیا ، لگتا ہے گھڑ سواروں کو قرار کا حکم ملا ہے ۔ اقتدارکی غلام گردشوں میں سازش کرنے والے مگر باز نہیں آیا کرتے ۔معیشت دلدل میں ہے ،دشمن سرگرم،سرحدوں پہ دبائو،مہم جوئی سے مزید خرابی، مزید الجھائو ، مزید پریشانی ۔اقتدار کے بیماروں کو اللہ تعالیٰ صبرِ جمیل عطا کرے !