اسلام آباد: سپریم کورٹ بار کی سابق صدراورانسانی حقوق کی رہنما عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا کوئی ایسا فیصلہ دکھایا جائے جس کو پڑھ کر یہ کہاجائے کہ سپریم کورٹ نے کیااعلیٰ فیصلہ کیا۔
عاصمہ جہانگیر نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سوچا تھا کہ پاناما تحقیقات میں ہیروں کی بوریاں نکلیں گی لیکن تحقیقات میں اقامہ نکلا، آرٹیکل 184 ایک ایسا آلہ کار ہے جو عام عوام کے لیے نہایت مفید ہے جس کے تحت کورٹ لاچار لوگوں کے لیے ازخودنوٹس لے سکتی ہے، پاکستان میں اس آرٹیکل کا غلط استعمال کیا گیاکیونکہ اس کے بعد فیصلے کیخلاف اپیل نہیںکی جا سکتی، صرف نظرثانی کی جا سکتی ہے، آرٹیکل 184(3) میں ترمیم کرکے اپیل کا حق دینا چاہیے۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میںدفاعی بجٹ کو زیر بحث لانا چاہیے۔ عوام جو مانگ رہے ہیں وہ ان کا بنیادی حق ہے جو آئین پاکستان نے انھیں دیا ہے، فاٹا کے لوگوں کو بنیادی حقوق ملیں گے یا نہیں، فاٹا ایک حل طلب سیاسی مسئلہ ہے، وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدرکے لیے جو الفاظ استعمال کیے گئے اس پر انھیں دکھ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت کرتی ہیں، کشمیر کا مسئلہ طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے تاہم بھارت، ایران، افغانسان سمیت ہمسایوں کیساتھ تعلقات بہتر بنانا ہوںگے۔