گزشتہ دونوں سوشل میڈیا پر پھلوں کی خریداری کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی تین دن کا یہ با ئیکاٹ پھلوں کی نا جائز قیمتوں میں کمی لانے کے لئے کیا گیا تھا ہمارے ملک میں ماہ رمضان کے شروع ہو نے قبل ناجائز منا فع خور ذخیرہ اند وزی شروع کر دیتے ہیں اور اس مقدس مہینے کو کما ئی سیزن سمجھتے ہوئے روزہ داروں کو لو ٹنا شر وع کر دیتا ہے تین دن کے اس عوامی بائیکاٹ کی وجہ سے پھلوںکی قیمتوں میں خاطر خو اہ کمی دیکھنے میں آئی ہے عوامی حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ یہ بائیکاٹ کافی حد تک کا میا ب رہا اور عوام کو اپنے حق کے لئے ایسے کی متحد ہ ہو نا چا ہیے لیکن اس با ئیکاٹ کے ختم ہو تے ہی قیمتیں دوبار ہ اسی رو ٹین پرلو ٹ آئیں اور آہستہ آہستہ قیمتوں میں آضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس مسئلے کا حل عوامی نظر میں با ئیکاٹ ہے جس سے قیمتوں کو کم کروایاجا سکتا ہے۔
دراصل یہ ایک عارضی حل ہے اس کے دو راستے ہیں ایک توحل حکو مت پاس ہے دوسراخود عوام کے پاس ہے حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان نا جا ئز منافع خوروں کی گردن پر ہاتھ ڈالے اور بجا ئے غر یب ریڑھی والوں کو جر مانے کرنے کے ان آڑھتوں پر اپنی گرفت مضبوط کرے جو منڈی میں بیٹھ کر پل بھر میں لاکھوں کما لیتے ہیں شہر میں چند ایک سستے رمضان بازار لگا نے سے پور ے شہر کو اس کا فائد ہ حاصل نہیں ہو تا اب جن شہر وں کی آباد ی لاکھوں میں ہے وہاں یہ بازاراتنی بڑی آبادی کی ضروریات کو پو را نہیں کر سکتے اب ہر صوبے میں اور ہر شہر میں تو ایسے رمضان بازار مو جو د نہیں ہیںدوسری طر ف زیادہ تر آبا دی دیہا توں میں رہا ئشی پذیر ہے جو اس سہولت سے فائد ہ حاصل نہیں کر پا تیہے بات گھو م کر دوبارہ ریاست کے پاس آجاتی ہے کہ ان ناجا ئز منافع خوروں پر گرفت مز ید سخت کی جا ئے اب دوسرا حل عوام کے پاس ہے بجا ئے بائیکاٹ کر کے اس کا عارضی حل نکا لنے سے بہتر ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کر یں میر ی نظر میں وہ حل ہے کفا یت شعاری جس پر عمل کر تے ہو ئے ہم نہ صرف پھلوں بلکہ ضروریات زند گی کی تما م اشیا ء میں کی قیمتوں میں کمی لا نے میں کا میا ب ہو سکتے ہیں جب ایک امیر اپنی گاڑی میںاپنی ضرورت سے زیاد ہ سامان مارکیٹ سے بھر کر لے جاتا ہے اورقیمتوں کی پرواہ کیے بغیرتو ما رکیٹ والے بھی ان جیسے گا ہکوں کے عا دی ہو جاتے ہیں پھر عا م غریب آدمی ان کو گاہک لگتا ہی نہیں وہ اس کے ساتھ بھی وہی سلوک اور ریٹ رکھتے ہیںجو وہ امیر آدمی کے ساتھ رکھتے ہیں جو بغیر دام کم کر وائے سودا لے لیتے ہیںپر غریب کی تکر ار اور باعث ان دوکاندار وں کو نا گوار گزرتی ہے وجہ یہ ہے کہ ان دوکانداروں کا سودا بڑے لو گ وافر مقد ار میں لے جا تے ہیں اب اگر ضرورت کی اشیاء کی خرید ار ی میں کفایت شعاری سے کام لیا جائے تو دوکاندار کو اپنا مال نکا لنے کی جلدی ہو تی ہے جس سے مارکیٹ میں قیمتیںکم اور برقرار رہتی ہیں اب جب ہر چیز کی قیمتیں آسمانوں پر ہوں گی اور وہ چیز ہر عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوں گی تو معاشرے کا توازن بگڑتا جا ئے گا۔
ان تمام مسائل کا حل بھی دو با توں میں ہے اور وہ صرف خود عوام کے پاس ہیں عوام صرف عوام نہیں جس میں پور ہ معاشرہ امیر غریب سب شامل ہیںجس میں آپ ہم اور میں سب شامل ہیں ہمیں ایک تو ان کا بائیکاٹ کر نا ہو گا جو عرصہ دارز سے ملک کو لو ٹ رہے ہیں جو ہر پانچ سا ل بعدکسی نئی لانڈری سے ڈرائی کلین کا ٹیگ لگا واکرآ جاتے ہیں اور ہم عوام ان کے عارضی میک اپ سے دھوکا کھا جا تے ہیں ہم ان کی جھو ٹی اور عارضی میٹھی باتوں میں آجا تے ہیں ہم ایک مر تبہ پھران اعتبار کر تے ہیں اور پھر پا نچ سا ل دوبارہ اذیت میں گزار تے ہیں اگر ہم ان سب جھو ٹے وعدے کر نے والوں اور عارضی ڈرائی کلین ہو کر آنے والوں کا با ئیکا ٹ کر یں تو ملکی حالات بہتری کی طر ف جا سکتے ہیں اور عوام کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔
اب آتے ہیں دوسری بات کی طر ف جس کا حل ہم سب کے پاس ہے اس با ئیکا ٹ کے بعد ہم اپنے معاشرے کو خوبصورت بنا نے میں کا میا ب ہو سکتے ہیں ہر طر ف امن سکون ہو سکتا ہے جر ائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے نا جا ئز منا فع خوری اور اس جیسی مز ید برا ئیاں ختم ہو سکتی ہیں وہ با ئیکا ٹ ہے ان شیطانی کا موں کا جس کے لئے شیطان ہر وقت ہمیں ورغلاتا رہتا ہیں وہ ہمیں لا لچ نا جا ئز منافع خوری پر رشوت لینے پر چوری ڈاکے اور کر پشن کر نے پر کسی کا حق مارنے پر کسی کی عز ت اچھا لنے برائی او ر زناکرنے پر اور وہی شیطان ہمیں اللہ کے قریب جانے سے روکتابھی ہے وہی شیطان ہمیں نماز ‘روزہ اور زکو اة جیسے فرائض کی ادائیگی سے بھی روکتا ہے اور وہی شیطان ہمیں ہر وقت بہکاتا اور ورغلاتارہتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ہر وہ برائی جنم لیتی ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جس دن ہم سب نے ان شیطانی کا موںکا با ئیکا ٹ کرنے میں کا میاب ہو گئے تواس دن کے بعد ہمیں کسی دوسرے با ئیکاٹ کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی۔