لاہور (ویب ڈیسک) وہ ختم ہو چکا ہے‘، ’وہ زہریلا ہے‘۔’ وہ میرا ہیرو ہے‘، ’ہم اس سے محبت کرتے ہیں‘۔ یہ ملی جلی آرا سعودی عوام کی اپنے متنازع ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بارے میں ہیں۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں قتل کے بعد
مشہور زمانہ صحافی فرینک گارڈنر بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔سے محمد بن سلمان کا مغرب میں تاثر کافی منفی ہو گیا ہے۔ اگرچہ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ شہزادے کا اس قتل کے ساتھ کوئی براہِ راست تعلق نہیں تاہم شاہی عدالت دیوان المالکی کے اندورنی حلقے میں بننے والے اس منصوبے کو کافی مشکوک نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ دنیا کے ایسے حصے میں جہاں کچھ بھی ان کے مرضی کے بغیر نہیں ہوتا اس معاملے میں یہ کہنا کہ یہ محض چند افراد کے اختیارات کا ناجائز استعمال تھا کافی نامعقول توجیہہ لگتی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ محمد بن سلمان چاہتے تھے کہ خاشقجی کی منہ زور تنقید کو روکنے کے لیے کچھ کیا جائے تاہم انھوں نے کبھی قتل کا حکم نہیں دیا البتہ ان کے دفتر کے منتظم سعود القہتانی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے کارروائی میں شریک لوگوں سے کہا کہ اس کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ سعودی عرب کے باہر بمشکل ہی سے کوئی جانتا ہے کہ سعودی بیانیہ ہے کیا۔ کئی دن تک تو سعودی میڈیا برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتا تھا کہ خاشقجی قونصلیٹ سے نکل گئے تھے۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ وہ پہلے ہی جھگڑے میں مارے گئے تھے۔ اب سعودی استغاثہ کا تازہ موقف یہ ہے کہ خاشقجی کا قتل پہلے سے سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔
اس قتل کے بعد کے اثرات اور خود اس کارروائی کو سعودی عرب نے بہت عجیب طرح سے انجام دیا ہے۔ لوگ صرف یہی سوچ سکتے ہیں کہ شاید محمد بن سلمان اپنے میڈیا مشیروں کی باتوں کو سن کر بھی در گزر کر رہے تھے۔ اس ساری صورتحال نے محمد بن سلمان کو عالمی رائے عامہ کی اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں زیادہ تر مغربی حکومتیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ان سے وابستہ نہیں رہنا چاہیں گی۔ سعودی عرب جیسے ملک کے لیے جو 1932 میں باقاعدہ طور پر متحدہ ہوا تھا، یہ ایک تبدیلی کا لمحہ ہے۔ کیا شاہی خاندان کے دیگر اعلی افراد (شہزادے) اس طاقتور شخصیت کے اختیارات میں صرف اس حد تک کمی لائیں جس سے مغربی قوتیں اور امریکی کانگریس مطمئن ہو جائے، جن میں سے کچھ اب اسلحے کی خریدو فروخت پر پابندی کی بات بھی کر رہے ہیں؟ یا وہ انہیں تخت سے محروم کر دیں گے یا انہیں کوئی ایسا منصب دے دیا جائے گا جس کی کوئی ذمہ داری نہ ہو؟ یا پھر وہ کوئی طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کریں گے جیسا کہ ایک ماہ پہلے اس کہانی کے سامنے آنے پر ایک ناکام کوشش کی گئی تھی۔
در حقیقت اس وقت سعودی عرب کے شاہی حلقوں میں بند دروازوں کے پیچھے کچھ سنجیدہ بات چیت ہو رہی ہے۔ السعود خاندان پر بحران کے اثرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 82 سالہ شاہ سلمان کے آخری زندہ بھائی شہزادہ احمد بن عبدالعزیز بھی منگل کو لندن سے ریاض لوٹے ہیں۔ خاموش طبع اور مفکر شہزادہ احمد اس گروہ کے ہیرو بن گئے تھے جو محمد بن سلمان کی مخالفت کرتا تھا۔ انھوں نے یمن میں جنگ کے معاملے میں ولی عہد اور ان کے والد کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اس لیے وطن واپس نہیں آ رہے تھے کہ انھیں ڈر تھا کہ انھیں گھر میں نظر بند کر دیا جائے گا لیکن اب وہ واپس لوٹ آئے ہیں تاکہ خاندان کے بڑوں کے ساتھ مل کر مشاورت کر سکیں۔ محمد بن سلمان کے مستقبل کی بات کریں تو کن کن چیزوں پر غور کیا جائے گا؟ سب سے پہلے تو ان کا کوئی یقینی حریف نہیں ہے۔ صرف 33 سال کی عمر میں انھوں نے تیزی سے طاقت حاصل کی۔ گذشتہ برس جون میں نسبتاً دانش مند اور زیادہ عمر کے شہزادے محمد بن نائف کی جگہ ولی عہد بنائے جانے کے بعد انھوں نے تمام تر طاقت اپنے ہاتھوں میں لے لی۔
ان کے پاس وزراتِ داخلہ کا اختیار ہے (جس میں خفیہ پولیس بھی شامل ہے)، نیشنل گارڈ (جس میں حکمراں شاہی خاندان اور ان کے مفادات کا تفظ کرنے والے گارڈز شامل ہیں) اور وزراتِ دفاع جس کے تحت وہ مسلح افواج پر اختیار رکھتے ہیں۔ وہ شاہی عدالت کے بھی سربراہ ہیں اور اقتصادی پالیسی کے بھی، اگرچہ ان کے والد بادشاہ ہیں لیکن درحقیقت محمد بن سلمان ہی ہیں جو ملک چلا رہے ہیں۔ خاشقجی کے بحران سے پہلے بھی محمد بن سلمان کی کئی پالیسیز متنازع بنتی رہیں اور کئی سینیئر سعودی اہلکاروں نے یہ سوال اٹھایا کہ وہ ملک کے لیے اثاثہ ہیں یا ذمہ داری۔ حد درجہ پراعتماد اور اپنے والد کے حمایت یافتہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو 2015 میں ایک مہنگی اور بظاہر نہ جیتی جانے والی یمن جنگ میں الجھا دیا تھا۔ گذشتہ برس انھوں نے درجنوں شہزادوں، تاجروں اور اہم شخصیات کو بدعنوانی کے الزامات کے بعد ریاض کے ایک ہوٹل میں اس وقت تک قید رکھا جب تک وہ سب بڑی رقوم واپس کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔ اگرچہ اس سب سے سعودی نوجوان کافی متاثر ہوئے تاہم حال ہی میں خود محمد بن سلمان نے اپنے لیے 450 ملین ڈالر کی ایک کشتی بھی خریدی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ریاست قطر کے ساتھ بھی لڑائی جاری ہے جو مغرب کا ایک ہم اتحادی ہے۔
گدشتہ ہفتے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے مناما میں کہا کہ قطر میں فضائی اڈہ بہت ناگزیر ہے جو 17 ممالک کو سہولت فراہم کرے گا ان کا یہ بیان اس بات کی یادہانی تھا کہ یہ لڑائی اب ختم ہو جانی چاہیے۔ لاکھوں نوجوان سعودیوں کے لیے محمد بن سلمان اب بھی مستقبل کی ایک امید ہیں۔ ’ایک جرات مند، کرشماتی رہنما اور ایک بصیرت رکھنے والا اصلاح کار جنھوں نے قدامت پسندوں سے اختیار لے کر خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دیا اور ریاست میں تفریحی زندگی کو دوبارہ متعارف کروایا۔ ان کے تیل پر انحصار کرنے والی معیشت میں اصلاحات لانے والے وژن 2030 پروگرام کی وجہ سے سعودی عوام میں ایک ہائی ٹیک مستقبل اور سب کے لیے بامطلب ملازمتوں کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ واشنگٹن، لندن اور پیرس میں بیٹھے ہوئے سفارتکاروں اور پالیسی سازوں کے لیے لگتا ہے کہ محمد بن سلمان کو ہٹانا یا کم از کم روکنا بظاہر ایک ناگزیر چیز لگتی ہے۔ لیکن سعودی عرب کا قدامت پسند حکمران خاندان چاہے گا کہ ایسا نہ ہو۔ سو کیا ان کا دور ختم ہو گیا ہے؟ اس مرحلے پر یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ یاد رہے کہ 2011 کے وسط میں ’عرب سپرنگ‘ کے دوران تقریباً سبھی یہ سوچ رہے تھے کہ شام کے صدر بشارالاسد کرسمس تک معزول ہو جائیں گے لیکن وہ سات برس گذر جانے کے بعد بھی برسرِاقتدار ہیں۔