اسلامی قانون ایک انتہائی حساس موضوع ہے جس پر ہر دور کے بہترین دماغ خرچ ہوئے ہیں اور امت کے ذہین ترین لوگوں نے اس پرکام کیا ہے۔ دیگر علوم و فنون کی طرح اس کی فنی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے، لیکن اصل چیز جس نے ہر دور میں اس کو زندہ علم کے طور پر باقی رکھا ہے اور جس میں دنیا کا کوئی علم وفن اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا وہ ہے حالات زمانہ پر اس کی تطبیق کا مسئلہ۔
یہ محض ایک فن نہیں ہے جو تحقیق وریسرچ کی چہار دیواری میں محدود ہے بلکہ دنیا کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے، احوال زمانہ پر اس کی نظر ہے، سوسائٹی کا نظم وضبط اس کے ذمہ ہے، نظام اخلاق کی باگ ڈور اس کے پاس ہے، احوال وظروف کی تشکیل میں اس کا بڑا حصہ ہے۔ اگر معاشرہ پر اسلامی قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جائے گا۔ اسلامی قانون اخلاق انسان کی پرائیویٹ لائف سے بھی بحث کرتا ہے اور سیاسی و سماجی نظام سے بھی۔ اسلامی قانون انسانی دنیا کےلیے خدا کا شاندار عطیہ ہے، انسانوں کا بنایا ہوا کوئی قانون اس کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ جب تک دنیا پر اسلامی قانون کی حکمرانی قائم رہی دنیا میں امن وسکون اور خوشحالی و فارغ البالی بھی پورے طور پر باقی رہی، لیکن جب سے دنیا اس قانون کے سایہ سے محروم ہوئی ہے بدامنی، بدچلنی، غربت وبھوک نری عام ہوئی، محبت ورواداری نے دم توڑ دیا، انسانی قدریں پامال ہوئیں، سارا فلسفہٴ اخلاق کتابوں کے اوراق تک محدود ہوکر رہ گیا، عام زندگی سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا، قانون کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا۔ آج دنیا کو پھر اسی قانون کی ضرورت ہے، دنیا جس امن وسکون کی متلاشی ہے۔
ایک مکمل نظام حیات
اسلام ایک آفاقی مذہب اور مکمل نظام حیات کا نام ہے جس نے ہر دور میں انسانیت کی رہبری کی ہے۔ ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک روئے زمین کی سب سے مضبوط اور رقبہ کے لحاظ سے سب سے وسیع قیادت کی زمام کار اس کے ہاتھ میں رہی ہے اور اس پورے عرصے میں سینکڑوں انقلابات اور حالات کی گردشوں کے باوجود کبھی ایک لمحہ کےلیے بھی کسی حلقے میں یہ احساس نہیں پایاگیا کہ اس قانونی نظام میں کسی قسم کی تنگی یا تشنگی پائی جاتی ہے۔ اسلام کے قانونی نظام نے ہردور میں انسانیت کے ہر طبقے کے مسائل کو حل کیا اور ملک وقوم کی ترقی واستحکام میں بنیادی رول ادا کیا۔
زوال کا سبب
لیکن جب مسلمانوں کا رشتہ شعوری یا غیرشعوری طور پر اس نظام سے کمزور ہوا تو وہ بھی اندرونی طور پر کمزور ہونے لگے اور ان کی قومی واجتماعی زندگی پر زوال کی پرچھائیاں پڑنے لگیں۔ اس لیے کہ اجتماعی زندگی کےلیے اجتماعی نظام کی ضرورت ہے اور کسی بھی اجتماع کے ٹوٹنے کےلیے یہ کافی ہے کہ اس نظام کو توڑ دیا جائے یا مشتبہ کردیا جائے جس سے وہ اجتماع جڑا ہوا ہے۔ کسی بھی قوم کا زوال اسی نقطہ سے شروع ہوتا ہے خواہ اس کا ادراک قوم کے بڑے طبقے کو ہو یا نہ ہو۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا، مسلمانوں نے جو خدائی قانون اور اسلامی نظام روئے زمین پر نافذ کیا تھا اس میں مسلمان فاتح کی حیثیت سے تھے، اس نظام کی ترجیحات میں سب سے بڑا حصہ مسلمانوں کا تھا۔ دوسری اقوام اور اقلیتوں کو بھی تمام انسانی حقوق دئیے گئے تھے مگر فرق یہ تھا کہ اس میں مسلمانوں کی حیثیت دینے والوں کی اور دوسری اقوام کی لینے والوں کی تھی۔ لیکن جب اسلامی نظام کی جگہ دوسرا نظام آیا اور اجتماعیت دین سے کٹ کر غیردینی نظام سے جڑگئی تو اس نئے نظام میں تمام ترجیحات دوسروں کےلیے ہوگئیں اوراس کی اگلی صفوں میں ایسے لوگ براجمان ہوگئے جن کو مسلمانوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی، اس لیے اب مسلمانوں کو پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارئہ کار نہ تھا۔
اسلامی قانون کا مزاج
اس ضمن میں ہمیں اسلامی قانون کے مزاج کو اپنے پیش نظر رکھنا بہت مفید ہوگا، اس طرح اسلامی قانون کی افادیت اور اہمیت کو ہم اور اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں:
اسلامی قانون میں تمام اقوام عالم اور دنیا کے ہر خطے کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت رکھی گئی ہے، اسی مقصد کے پیش نظر اسلامی قانون کی تشکیل کے وقت چند بنیادی امور کا لحاظ کیا گیا جن سے اسلامی قانون کے ذوق ومزاج پر روشنی پڑتی ہے مثلاً
* عبادات میں طبعی رغبت ومیلان کو اہمیت دی گئی اور ان تمام محرکات وعوامل کی اجازت دی گئی جو اس میں معاون ومددگار ثابت ہوں؛ بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت نہ ہو۔
* جو چیزیں طبع سلیم پر گراں گذرتی ہیں ان کو ممنوع قراردیا گیا۔
* تعلیم وتعلّم اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو دائمی شکل دی گئی تاکہ انسانی طبائع کو اسلامی مزاج کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملتی رہے۔
* بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے دو درجے مقرر کیے گئے تاکہ انسان اپنی سہولت کے مطابق جس کو چاہے اختیار کرے۔
* بعض احکام میں رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم سے دو مختلف قسم کے عمل منقول ہیں اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔
* بعض برائیوں میں مادی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیا گیا۔
* احکام کے نفاذ میں تدریجی ارتقا کو ملحوظ رکھا گیا، یعنی ایک ہی وقت میں تمام احکام نافذ نہیں کردئیے گئے اور نہ ساری پابندیاں عائد کردی گئیں۔
* تعمیری اصلاحات میں قومی کردار کی پختگی اور خامی کی خاص رعایت رکھی گئی۔
* نیکی کے زیادہ تر اعمال کی مکمل تفصیل بیان کردی گئی اور اس کو انسانوں کی فہم پر نہیں چھوڑا گیا ورنہ بڑی دشواری پیش آتی۔
* بعض احکام کے نفاذ میں حالات ومصالح کی رعایت کی گئی اور بعض میں اشخاص وافراد کی۔
قانونی حیثیت
سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسانی قانون کی توثیق وتصدیق انسانی جماعت یا انسانی عدالت کرتی ہے اس کے بغیر وہ قانون بن ہی نہیں سکتا، جبکہ اسلامی قانون کی تصدیق خود رب کائنات کرتا ہے، دنیاکی عدالت اس کو مانے یا نہ مانے اس کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تقدیس کا پہلو
انسانی قانون اپنے لیے کوئی تقدیس کا پہلو نہیں رکھتا، یہ لوگوں کے جسموں پر حکومت کرتا ہے دلوں پر نہیں۔ جبکہ اسلامی قانون اپنے ماننے والوں کے نزدیک ایک مقدس ومحترم قانون ہے، یہ انسانوں کےلیے خدا کا عطیہ ہے، اس طرح یہ جسموں کے ساتھ دلوں پر بھی حکومت کرتا ہے اور سوسائٹی کے ظاہر وباطن دونوں سے بحث کرتا ہے۔
مثبت ومنفی فرق
انسانی قانون کی تعمیر عموماً منفی بنیادوں پر ہوئی ہے، یہ اکثر ردعمل کے نتیجہ میں وجود پذیر ہوتا ہے، اسی لیے افراد کی تعمیر، اخلاقیات، تزکیہٴ نفس اور تطہیر وتربیت کے ابواب میں یہ کوئی رہنمائی نہیں کرتا، جبکہ اسلامی قانون زیادہ تر مثبت اصولوں پر چلتا ہے اور اعمال سے زیادہ اسباب ومحرکات پر نگاہ رکھتا ہے اور اسی کی روشنی میں یہ قانون سازی کرتا ہے۔
قانونی معنویت
انسانی قانون کی بنیاد محض خاندانی رسوم وروایات اور علاقائی عرف وعادات پر ہے اس لیے اس میں تعصبات وتنگ نظری کی تمام آلودگیاں موجود ہیں۔ اس میں علمی اور فلسفیانہ بنیادوں کی آمیزش نہیں ہے، جبکہ اسلامی قانون کی بنیاد روز اوّل ہی سے انسانی فطرت اور ہدایت الٰہی پر ہے، یہ ابتدا ہی سے عالمگیر اور فلسفیانہ بنیادوں پر تعمیرہوا ہے، انسانی قانون ہزاروں سال کے ارتقاء کے بعد جس منزل پر پہنچے گا اسلامی قانون کا پہلا قدم ہی وہاں سے اٹھا ہے۔
قانونی وحدت
قانون میں وحدت ویکسانیت بھی ایک ضروری چیز ہے انسانی قانون میں اصل کے لحاظ سے وحدت ویکسانیت موجود نہیں ہے اس لیے کہ اس کے سرمایے میں خاندانی روایات اور قومی عرف وعادات کا بڑا حصہ ہے جو ہر علاقہ اور خاندان کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ حضرت آدم عليه السلام سے لے کر حضور صلى الله عليه وسلم تک تمام انبیاء کے قوانین ایک ہی وحدت کے ساتھ وابستہ ہیں، خود قرآن اس کی شہادت دیتا ہے۔
سرچشمہٴ قانون
اسی طرح انسانی قانون چند انسانی ذہنوں کی پیداوار ہے جبکہ اسلامی قانون خود خالق کائنات کا دیا ہوا عطیہ ہے اور آج اس حقیقت کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں کہ انسان کبھی خود اپنے لیے قانون مرتب نہیں کرسکتا، اس لیے کہ انسان محدود علم واحساس رکھتا ہے، وہ کروڑوں انسانوں کی نفسیات کا قدر مشترک معلوم نہیں کرسکتا اور تمام لوگوں کے احساسات وطبائع کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون سازی ہرگز نہیں کرسکتا؛ قانون خواہ کتنے ہی اخلاص کے ساتھ بنایا جائے مگر اس میں طبعی میلانات اور ذاتی رجحانات کا اثر ناگزیر طور پر آئے گا۔
قانون جماعت سے یا جماعت قانون سے؟
انسانی قانون اور اسلامی قانون کے درمیان ایک اصولی فرق یہ بھی ہے کہ انسانی قانون میں قانون جماعت سے موٴخر ہوتا ہے، سوسائٹی پہلے ہوتی ہے اوراس کی تنظیم کےلیے قانون بنایا جاتا ہے، قانون جماعت کو پیدا نہیں کرتا۔ جبکہ اسلام میں قانون جماعت سے مقدم ہے، جماعت کے وجود اور اس کے حالات پر قانون کا انحصار نہیں ہوتا بلکہ قانون پہلے بنتا ہے اس کے مطابق جماعت کی تعمیرہوتی ہے۔ اگر حالات سازگار نہیں ہیں تو ان کی اصلاح کی جاتی ہے اور ان کو نفاذ قانون کے لائق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر حالات کی بنا پر قانون نہیں بدلا جاسکتا۔
نفاذ کی قوت
انسانی قانون قوت نافذہ کے لحاظ سے بھی کمزور واقع ہوا ہے، اسے اپنے افراد پر مکمل قابو نہیں ہوتا اور نہ تنہا قانون جرائم کے انسداد کےلیے کافی ہوتا ہے، اس کو اپنے کسی بھی قانون کے عملی نفاذ کےلیے مضبوط مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اس قانون میں مجرمین کے بچ نکلنے کے بہت سے امکانات موجود ہوتے ہیں۔
آج دنیا کو پھر اسی قانون کی ضرورت ہے۔
مذکورہ بالا وجوہات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انسانی دنیا کی رہنمائی آج بھی اسلامی قانون ہی کے ذریعہ ممکن ہے، اسلام ایک مکمل دین اور مکمل قانون ہے، یہ ساری انسانیت کےلیے ایک فطری قانون ہے۔
صدیوں سے انسان قانون سازی کے میدان میں کوشش کررہا ہے۔ اگرچہ کہ اس میں الٰہی قوانین سے بڑی حد تک استفادہ کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا مکمل قانون وضع نہ کیا جاسکا جس کو ناقابل ترمیم قرار دیا جائے اور انسانی جذبات وافعال کا مکمل آئینہ دار اس کو کہا جاسکے۔ یہ صرف قانون اسلامی ہے جو اپنے آپ کو کامل ومکمل بھی کہتا ہے اور ناقابل تنسیخ بھی قرار دیتا ہے۔
اگر یونیورسٹیوں میں تحقیق وریسرچ کے شعبہ میں اسلامی قانون کو مطالعہ کا خاص موضوع بنایا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ دنیا کے تمام قوانین اس کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے۔
اس طرح کی کوششیں چھوٹی بڑی سطح پر بار بار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی قانون سے متعلق غلط فہمیاں دور ہوں اور دنیا پھر اسلامی قانون سے استفادہ کے قابل ہوسکے۔