لال مسیح ایک’’ ریٹائرڈ جلاد‘‘ ہے اس نے اپنی 27 سالہ پولیس کی نوکری میں 750 لوگوں کو پھانسیاں دیں، یکی گیٹ لاہور میں 1955ء کو پیدا ہونے والا لال مسیح معروف جلاد تارا مسیح کا سالا ہے اور اپنے خاندانی جلاد ہونے پر آج بھی فخر کرتاہے۔تارا مسیح وہ جلاد ہے جس کے والد نے معروف حریت پسند باغی بھگت سنگھ کو پھانسی دی تھی اور خود تارا مسیح نے پاکستان کے مقبول ترین وزیر اعظم ذوالفقار علیبھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا جس کا معاوضہ اُس دور کی حکومت وقت نے مبلغ25 روپے ادا کیا۔اپنے بہنوئی تارا کی وفات کے بعد لال مسیح 1984ء میں بطور جلاد پولیس میں بھرتی ہوا۔ جلاد کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک سفاک شخصیت کا تصور ابھرتاہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ صرف سرکاری احکامات کی پابندی کرتے ہیں، انہیں نہیں پتا ہوتا کہ جس کی زندگی کا یہ خاتمہ کرنے جارہے ہیں وہ سزا کا حق دار تھا یا نہیں۔انہیں صرف اپنی ڈیوٹی اد ا کرناہوتی ہے۔ لال مسیح کے مطابق پاکستان میں پھانسی کے وقت چار لوگ مجرم کے پاس موجود ہوتے ہیں جس میں کیس کا جج، ایس پی اور کچھ پولیس کے آدمیوں کے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی شامل ہوتا ہے۔عموماً ایس پی، پھانسی پانے والے سے اس کی آخری خواہش پوچھتا ہے ، زیادہ تر مجرم اپنے بچوں کو پیار پہنچانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔1985تک پھانسی کا یہ عمل مجرم کے لواحقین کو بھی لائیو دیکھنے کی اجازت تھی تاہم سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو نے پہلی بار یہ آرڈر دیے کہ لواحقین کو اپنے پیاروں کی پھانسی کا سارا عمل دکھانے کی بجائے صرف ڈیڈ باڈی ان کے حوالے کی جائے۔لال مسیح کے مطابق جب مجرم کو پھانسی گھاٹ کے سامنے لایا جاتا ہے تو اسے ایک کالے رنگ کا ماسک پہنا دیا جاتا ہے تاہم مجرم اس ماسک میں سے باہر کا دھندلا سا منظر دیکھ سکتا ہے۔ جب مجرم کو ماسک پہنایا جاتا ہے توپھانسی گھاٹ پر گھمبیر خاموشی چھا جاتی ہے حتیٰ کہ ایس پی صاحب بھی پھانسی کی اجازت محض ہاتھ ہلا کر دیتے ہیں۔لال مسیح نے بتایا کہمجرم کو پھانسی گھاٹ پر لانے کے بعداس کی گردن میں رسی باندھنا بھی جلاد کے فرائض میں شامل ہے ، یہ رسی اس انداز سے باندھی جاتی ہے کہ کسی بھی صورت مجرم کا سر اس کی گرہ میں سے نہ نکل سکے۔جب لال مسیح کسی مجرم کو پھانسی دینے کے لیے لیور کھینچنے لگتا تو اس کے کان میں آہستہ سے کہتا مجھے تمہاری موت کی نہ کوئی خواہش ہے نہ سروکار، میں تو صرف اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہوں‘‘ یہ سب کچھ چیک کرنے کے بعد وہ لیور کے سٹینڈ کے پاس چلا جاتا اور ایس پی کی اجازت کا انتظار کرتا ۔اجازت ملتے ہی لال مسیح لیور کھینچتا اور مجرم کے پیروں کے نیچے سے تختہ کھل جاتا ، مجرم کی گردن لکڑی کے فریم میں پھنس جاتی اور اس کا جسم تقریباً پانچ فٹ نیچے ہوا میں لٹکنے لگتا ۔ لال مسیح کے مطابق پھانسی پانے والے کے جسم کو تیس منٹ تک لٹکائے رکھنا ضروری ہوتاہے ، اس کے بعد اس کے لٹکے ہوئے جسم کے ہاتھ کالے ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے،بعد ازاں ڈاکٹر مجرم کی موت کی تصدیق کرتاہے، متعلقہ جج کاغذات پر سائن کرتا ہے اور لاش ورثا کے حوالے کر دی جاتی ہے ۔ لال مسیح نے بے شمار قاتلوں سے لے کر ، ٹاپ کے دہشت گردوں اور اشتہاریوں کو اپنے ہاتھوں سے پھانسیاں دیں جن میں کئی پھانسیاں اس نے سرعام دیں۔لال مسیح کی تنخواہ 450 روپے تھی تاہم اسے پورا پاکستان گھومنے کا موقع ملا کیونکہ عموماًمجرم کو اس کے علاقے کی قریبی جیل میں ہی پھانسی دی جاتی ہے اس لیے جہاں جہاں پھانسیاں ہوتی تھیں لال مسیح کو طلب کرلیا جاتا تھا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں فی پھانسی جلاد کو دس ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ہیومن رائٹس کمیشن کی 2013 کی رپوٹ کہتی ہے کہ پاکستان میں 6218 سزائے موت کے قیدی اپنی پھانسی کے منتظر ہیں۔انڈیا میں تو پیشہ ور جلادوں کی سخت کمی محسوس کی جارہی ہے ، اگر پاکستانی جلاد کا معاوضہ بھی انڈین جلاد کے مطابق ہوجائےتوآج کی تاریخ میں ساری پھانسیاں دینے کے بعد جلاد کو ملنے والی ممکنہ رقم لگ بھگ 6 کروڑ بنتی ہے۔۔۔!!!لال مسیح کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ’’جلادی‘‘ دور میں ڈاکٹر، بینکار اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی تختہ دار پر لٹکایا ہے۔ اس نے بتایا کہ سر عام پھانسیاں عام طور پر جنوبی پنجاب میں دی جاتی رہی ہیں جس میں مظفر گڑھ ، میانوالی اور ملتان شامل ہیں، اس کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ ایک موٹے مجرم کو پھانسی دینے کے لیے لیور کھینچا تو تو رسی ہی ٹوٹ گئی تاہم ایسی صورت میں پھر یہ پولیس کا کام ہوتا ہے کہ وہ آدھے مرے ہوئے مجرم کو دوبارہ پھانسی گھاٹ پر لے کر آئے۔ لال مسیح کے مطابق کم وزن والے مجرم اکثر رسی کےساتھ لہراتے رہتے تھے لیکن ان کی جان نہیں نکلتی تھی لہذاان کی تکلیف ختم کرنے کے لئے اسے حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نیچے جائے اور مجرم کے پاؤں پکڑ کر خود بھی لٹک جائے۔ یوں 110 کلوگرام کا لال مسیح جب دبلے پتلے مجرم کے پیرپکڑ کر لٹکتا تھا تو واقعی مجرم کی ’’تکلیف‘‘ رفع ہوجاتی تھی۔لال مسیح بڑے فخر سے بتاتا ہے کہ ایک دفعہ میں نے ایک ہی وقت میں پانچ آدمیوں کو ایک ساتھ پھانسی دی۔ اُس نے بتایا کہ اس نے زندگی میں سب سے کم عمر پھانسی ایک لڑکے کو دی جس کی عمر 16-17 سال تھی اور وہ اپنی منگیتر کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار ہوا تھا اور سب سے زیادہ عمر کی پھانسی تقریباً 55 سالہ شخص کو دی جس نے اپنے بھائی کا قتل کیا تھا۔ا س نے کہا کہ سب سے بہادر وہ شخص تھا جو لاہور ہائیکورٹ بم دھماکے میں ملوث تھا۔ اس نے ایک لمحے کے لئے بھی خوف نہ دکھایا، اس کا نام محرم علی شاہ تھا، لال مسیح نے کہا کہ جب میں نے اس کے کان میں جا کر کہا کہ میں صرف حکم کی تعمیل کرنے جا رہا ہوں تو محرم مسکرایا اور اس نے کہا ”حکم کی تعمیل کرو ۔ لال مسیح کو ایک دفعہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنے ایک رشتہ دار کو بھی پھانسی دینا پڑی۔ اپنے سفاکانہ پیشے کے بالکل برعکس، لال مسیح ایک مزاحیہ آدمی ہے، مزاح سے بھر پور۔ 5 عدد پوتوں کا داد ا یہ جلاد ایک مکمل پیار کرنے والا انسان ہے۔اس کی دو بیٹیاں اور سات بیٹے ہیں جن میں سے دو کی شادی ہو چکی ہے۔معزز جلادوں کے درمیان ایک اور جلاد بھی ہے ۔جسے سرکاری قاتل کا نام دیا جاتا ہے ۔ پاکستان کے ملک ا لموت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک نیک انسان ہی نہی بلکہ خدا کا پسندیدہ فرشتہ تھا جو انسان کے جسم و جان کے رشتے کو ختم کرنے کے فرائض سر انجام دیتا تھا کہا جاتا ہے کہ اچھے اور نیک انسانوں کی روح قبض کرنے آتا تو یہ فرشتہ بہت دوستانہ شکل میں نمودار ہوتا اور ایسا لگتا کہ سفر میں آسانی پیدا کرنے آیا ہو۔گناہ گاروں کے سامنے یہ فرشتہ خوفناک شکل میں نمودار ہوتا ۔پاکستان کے قیدیوں کے لیے یہ فرشتہ کوئی اور نہیں بلکہ صابر مسیح ہے ۔پاکستان کی تاریخ کے تین جلادوں میں سے صابر مسیح وہ جلاد ہے جس نے 250 سے زیادہ قیدیوں کو پھانسی دے چکے ہیں۔مسیح کا تعلق ہی جلاد فیملی سے ہے اور اس کے والد صادق بھی 40 سال تک جلاد رہے اور 2000 میں ریٹائر ہوئے اُن کے دادا اور دادا کے بھائی بھی یہی کا م کرتے تھے اور ان کے دادا کے بھائی نے ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی۔ تارا مسیح بھٹو کو پھانسی دینے کے لیے بہاولپور سے لاہور کی کوٹ لکھ پت پہنچے تھے کیونکہ صادق مسیح نے ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے سے انکار کر دیا تھاصابر مسیح کو معلوم تھا کہ وہ اس فیملی بزنس کا حصہ بنیں گے انہوں نے پہلی پھانسی 22 سال کی عمر میں دی ۔ اس واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل انہوں نے اس وقت تک صرف ایک لاش کو لٹکتے ہوئے دیکھا تھا اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں لیور کھینچتے وقت وہ اس بات کو تو نہیں سوچتے بلکہ ان کا دھیان جیل سپرینڈ نٹ کے اشارے کی طرف ہوتی ہے ۔ صابر مسیح جلاد فخر کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ڈیوٹی پر آتے ہی پہلے کچھ مہنوں میں انہوں نے 100 افراد کو پھانسی دی تھی ۔2008 کے بعد کچھ عرصہ کے لیے صابر مسیح کا کام رک گیا تھا کیونکہ پیپلز پارٹی نے پھانسیوں پر غیر اعلانیا پابندی لگا دی تھی ۔2014 میں یہ پابندی ہٹا دی گئی جس کی وجہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کا واقعہ تھا جس میں 150 سے زائد بچوں کو شہید کیا گیا تھا جس سے پوری حکومت اور عوام سکتے میں آ گئی تھی اورپھر حکومت نے فوری طور پر پھانسی سے پابندی ختم کر دی تاکہ ٹی ٹی پی کے مجرموں کو جلد از جلد اُن کے جرائم کی سزا دی جا سکے ۔کچھ ہی گھنٹوں میں مسیح کو لاہور سے فیصل آباد بلایا گیا اور انہوں نے 2 دہشتگردوں کو لٹکایا۔ اس دن سے لے کر اب تک پاکستان میں ہیومن رائٹ آف کمیشن آف پاکستان کے مطابق 471 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے ۔ پچھلے سال پاکستان میں 87 افراد کو پھانسیاں دی گئیں اور دنیا میں پھانسیاں دینے والے ممالک میں پاکستان 4 نمبر پر رہا ۔تمام کی تمام پھانسیاں پنجاب کے صوبے میں دی گئیں ۔ پوچھا گیا کہ کیا وہ گنتے ہیں کہ انہوں نے اب تک کتنے افراد کو پھانسیاں دے چکے ہیں تو انہوں نے کہا کہ جب جیل کے پاس ریکارڈ ہوتا ہے تو انہیں یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے