انتہائی مفلس اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح بی ایس سی اور بی ایڈ کر کے وزیرآباد کے قریب علاقہ نظام آباد کے گورنمنٹ ہائی سکول میں سائنس کا استاد بھرتی ہوگیا۔ 2004ء میں اس نے نوکری چھوڑ دی اور دبئی چلا گیا، وہ چھ ماہ دوبئی رہا پھر واپس آیا اورایک ایسا کام شروع کیا کہ جس نے اسے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی مشہور کردیا۔ اس نے اپنے ایک جاننے والے شخص سے جو کہ ماربل کا کام کرتا تھا، کچھ رقم مانگی اور یہ رقم پندرہ دن میں دوگنی کر کے اُسے واپس کردی۔ محلے کے مزید دو لوگ اس کےاگلے گاہک بنے‘ یہ بھی پندرہ دنوں میں دوگنی رقم کے مالک ہوگئے‘ یہ دو گاہک اس کے پاس پندرہ گاہک لے آئے، اور پھر یہ پندرہ گاہک مہینے میں ڈیڑھ سو گاہک ہوگئے۔ پھر تو لوگوں کی لائن لگ گئی محلہ سے شروع اس کام کی بھنک جس جس کے کان میں پہنچی لالچ اور طمع اسے اس شخص کے پاس لے آئی اور رقم دو گنا کروانے کا یہ لالچ وزیرآباد‘ سیالکوٹ گجرات اور گوجرانوالہ تک پھیل گیا. اور چند ہزار روپے تنخواہ لینے والا معمولی سکول ماسٹر چند ماہ کے اندر ارب پتی ہوگیا۔ اس کا یہ کاروبار 18 ماہ جاری رہا۔ اس شخص نے ان 18 مہینوں میں 48 ہزار لوگوں سے سات ارب روپے جمع کر لئے، جب کاروبار پھیل گیا تو اس نے اپنے رشتے داروں کو بھی شامل کر لیا۔ یہ رشتے دار پورے گوجرانوالہ ڈویژن سے رقم جمع کرتے تھے، پانچ فیصد اپنے پاس رکھتے تھے، اور باقی رقم اسے دے دیتے. وہ شروع میں پندرہ دنوں میں رقم ڈبل کرتا تھا. یہ مدت بعدازاں ایک مہینہ ہوئی. پھر دو مہینے اور آخر میں 70 دن ہوگئی یہ سلسلہ چلتا رہا، درصل وہ شخص ’پونزی سکیم‘ چلا رہا تھا۔ پونزی مالیاتی فراڈ کی ایک قسم ہوتی ہے جس میں رقم دینے والا گاہکوں کو ان کی اصل رقم سے منافع لوٹاتا رہتا ہے۔ شروع کے گاہکوں کو دوگنی رقم مل جاتی ہے لیکن آخری گاہک سارے سرمائےسے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس کا نام سید سبط الحسن تھا لیکن وہ ڈبل شاہ کے نام سے مشہور ہوا اور ہمیشہ کیلئے پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیئے کے طور پر اپنا نام رقم کر گیا اس نے صرف ڈیڑھ سال میں تین اضلاع سے سات ارب روپے جمع کر کے دنیا کو حیران کردیا۔ آپ اب اس شخص کی چالاکی ملاحظہ کیجئے،یہ 2007ء میں نیب کے شکنجے میں آ گیا۔ نیب نے اس کی جائیداد‘ زمینیں‘ اکاؤنٹس اور سیف پکڑ لئے‘ یہ رقم تین ارب روپے بنی، اور اس نے یہ تین ارب روپے چپ چاپ اور بخوشی نیب کے حوالے کر دیئے۔ ڈبل شاہ کا کیس چلا۔ اسے یکم جولائی 2012ء کو 14 سال قید کی سزا ہوئی۔ جیل کا دن 12 گھنٹے کا ہوتا ہے چنانچہ ڈبل شاہ کے 14 سال عملاً 7 سال تھے۔ عدالتیں پولیس حراست‘ حوالات اور مقدمے کے دوران گرفتاری کو بھی سزا سمجھتی ہیں۔
ڈبل شاہ 13 اپریل 2007ء کو گرفتار ہوا تھا‘ وہ عدالت کے فیصلے تک پانچ سال قید کاٹ چکا تھا‘ یہ پانچ سال بھی اس کی مجموعی سزا سے نفی ہوگئے‘ پیچھے رہ گئے دو سال‘ ڈبل شاہ نے محسوس کیا چار ارب روپے کے عوض دو سال قید مہنگا سودا نہیں، چنانچہ اس نے بارگین کی بجائے سزا قبول کر لی۔ جیل میں اچھے چال چلن‘ عید‘ شب برات اور خون دینے کی وجہ سے بھی قیدیوں کو سزا میں چھوٹ مل جاتی ہے۔ڈبل شاہ کو یہ چھوٹ بھی مل گئی. چنانچہ وہ عدالتی فیصلے کے 2 ماہ بعد جیل سے رہا ہوگیا۔
ڈبل شاہ 15 مئی 2014ء کو کوٹ لکھپت جیل سے رہا ہوا، تو ساتھیوں نے گیٹ پر اس کا استقبال کیا۔ یہ لوگ اسے جلوس کی شکل میں وزیر آباد لے آئے۔ وزیر آباد میں ڈبل شاہ کی آمد پر آتش بازی کا مظاہرہ ہوا۔ پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیئے کو ہار پہنائے گئے۔ اس پر پھولوں کی منوں پتیاں برسائی گئیں، اور اسے مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے مبارک باد پیش کی گئی۔ حیرت یہ ہے کہ وزیرآباد میں آج تک کبھی کسی سیاسی مزہبی اور کھلاڑی کو اتنی پزیرائی نہیں ملی تھی جتنی اس شخص کو ملی، آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں ہمارا معاشرہ اندر سے کتنا کھوکھلا ہے ہماری اقتدار جو کسی دور میں ایک رشوت لینے والے شخص کو بھی دھتکار دیتی تھیں ایک ایسے شخص کے رہا ہونے کا خیر مقدم کررہی تھیں جس کا کیا ہوا کام نہ قانونی تھا نہ اخلاقی اور نہ ہی مذہب ہی اس کی اجازت دیتا تھا وہ سرے عام لوگوں کو لوٹ رہا تھا اور ہر شخص یہ بھی جانتا تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ گیم ختم ہوجانی ہے لیکن ہر کوئی یہی چاہ رہا تھا کہ ڈبل شاہ اپنا کاروبار دوبارہ سے شروع کردے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد اس نے قانونی طور پر اب کسی کو کچھ ادا نہ کرنا تھا، اور نہ ہی پولیس اور نیب اسے تنگ کر سکتی تھی۔ یہ چار ارب روپے اب اس کے تھے۔ یہ اس رقم کا بلا شرکت غیرے مالک تھاایک سابق سکول ٹیچر کے لئے چار ارب روپے کی رقم قارون کے خزانے سے کم نہیں تھی. وہ وزیرآباد سے لاہور شفٹ ہوا، اور دنیا بھر کی سہولیات کے ساتھ شاندار زندگی گزارنے لگا۔