تائیکوانڈو کھلاڑی محمد اویس جرات، لگن اور بہادری کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ معروف صحافی اور فیصل فلاحی فاؤنڈیشن کے بانی جناب رجب علی فیصل بتاتے ہیں کہ بچپن میں جب ہم مدرسہ جایا کرتے تھے تو راستے میں جامن کا ایک بہت بڑا پیڑ تھا جس سے روزانہ ہم جامن توڑا کرتے تھے۔ مگر جونہی ہم پھل توڑ لیتے تو محمد اویس ہمیں مکوں کا اشارہ کرکے ڈرا دھمکا کر روزانہ آدھے جامن چھین لیا کرتا تھا۔ ہم تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود بھی ان کے مکوں سے ڈر جاتے، اور یوں کافی عرصہ تک یہ سب برداشت کرتے رہے۔
لیکن اس دن ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا جب اس نے کہا کہ آج سے تم لوگ سارے جامن توڑ کر میرے ہاتھ پر رکھو گے۔ بس پھر کیا تھا، اگلے دن سارے دوست مل کر خوب تیاری کے ساتھ گئے اور جیسے ہی انہوں نے جامن کا شاپر چھیننے کےلیے ہاتھ آگے کیا تو ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ان پر ٹوٹ پڑے۔ مکوں اور ڈنڈوں کی بارش کردی جس سے وہ بیہوش ہوگئے؛ اور یوں جامن دینے سے ہماری جان چھوٹ گئی۔
محمد اویس کے مکے تو بچپن سے ہی مشہور تھے، لیکن ان کی غربت اور تنگی کی وجہ سے ہمیں یہ یقین نہ تھا کہ وہ ایک دن انٹرنیشنل کھلاڑی بن کر نا صرف اپنے علاقے، بلکہ ملک پاکستان کا نام بھی پوری دنیا میں روشن کرینگے۔
محمد اویس ڈیرہ اسماعیل خان (شہر) کے متوسط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ تائیکوانڈو کھلاڑی احمد ابو غوش (اردن) جو 2016 کے اولمپکس گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ اس نوجوان نے باضابطہ تائیکوانڈو کھیل 2011 سے شروع کیا جب انہیں مارکس کم ہونے کے وجہ سے فرسٹ ائیر کےلیے مقامی کالج میں داخل نہیں مل رہا تھا۔ وہ پریشان تھے کہ اب داخلہ کیسے لیا جائے؟
ایسے میں ان کی ملاقات زار خان نامی ایک استاد سے ہوئی جنہوں نے ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں اسپورٹ سرٹیفیکیٹ بنوا کر دیا۔ (کیونکہ یہ نوجوان کم عمری سے ہی مقامی لیول پر تائیکوانڈو کھیلاڑی تھا) تاکہ کالج میں داخلہ مل سکے اور ان کا تعلیم حاصل کرنے کا خواب پورا ہو۔ یوں ان کا شوق مزید بڑھ گیا اور ایک اچھی تائیکوانڈو اکیڈمی بھی جوائن کر لی۔ اس کے بعد ضلعی و صوبائی لیول پر کھیلنے کا موقع ملا، لیکن غربت کے سبب والدین کی طرف سے حوصلہ افزائی نہ ہوسکی، کیوں کہ وہ یہ سب اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ گھر والے اکثر اس سے کہا کرتے کہ تم یہ سب خوامخواہ کررہے ہو، کوئی ایسا کھلاڑی بتاؤ جسے آج تک اس کھیل سے کچھ فائدہ ہوا ہو؟ اس سوال پر اویس خاموش تو ہوجاتے، پر زندگی کے کٹھن حالات کے سامنے ہار بالکل نہیں مانتے۔
جب گھر والوں کو یقین ہوگیا کہ محمد اویس اب پیچھے نہیں ہٹے والا، تو انہوں نے بھی زبانی حد تک حوصلہ افزائی کرنا شروع کردی، کیونکہ ان کے پاس مالی وسائل اتنے نہیں تھے۔ یوں اس نواجوان کی محنت رنگ لائی اور پہلی بار 2016 میں انڈر 23 گیمز میں گولڈ میڈل جیت کر اپنی کامیابیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا؛ اور پھر خیبرپختونخواہ تائیکوانڈو ٹیم کے کپتان بھی مقرر ہوگئے۔
دوسری قائداعظم گمیز میں سلور میڈل حاصل کیا اور اسی دوران بارہویں کورین نیشنل تائیکوانڈو چیمپئین شپ اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ اس ایونٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر وہ پاکستان تائیکوانڈو ٹیم کے لیے منتخب ہوگئے جس کے بعد ملائیشیائی اوپن تائیکوانڈو چیمپئن شپ میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ اس چیمپئن شپ کے لیے وہ مسلسل 3 ماہ تک محنت کرتے رہے جس پر ان کی ماں نے ایک بار پھر کہا کہ بیٹا فائدہ کیا ہے اپنے آپ کو اتنا کھپانے کا؟ لیکن ان کے جنون میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔
محمد اویس کہتے ہیں کہ جب مجھے اس بارے میں علم ہوا کہ ملائشیا کے ٹرپ پر تقریباً ایک لاکھ روپے کا خرچہ آئے گا، تب ہی جاکر انٹرنیشنل ملائیشیائی اوپن تائیکوانڈو چمپیئن شپ میں شرکت کا موقع ملے گا، تو میرے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین ہی نکل گئی۔ پھر میں یہ سوچنے لگا کہ اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ ہمارے گھر میں تو اضافی ایک روپیہ بھی نہیں جو ہم اس مد میں استعمال میں لاسکیں۔ اس دوران بھائیوں سے بات کی تو انہوں نے بھی صاف صاف کہہ دیا کہ یہ سب ہمارے بس کی بات نہیں، لہذا اب آپ بھی یہ سب چھوڑو اور روزی روٹی کےلیے کوئی مزدوری تلاش کرو۔
یہ سب سن کر بہت پریشانی ہوئی، پر امید نہیں چھوڑی۔ میں نے اپنے رب تعالیٰ سے گڑگڑا کر یہ دعا کی؛ اے میرے خدا… میری مدد فرما دے! پہلی بار بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے، اگر یہ بھی غربت کی وجہ سے ہاتھ سے نکل گیا تو مجھے ساری زندگی بہت دکھ رہے گا۔
اتنے میں میرے استاد نصیر بلوچ نے ٹیلی فون پر خوشخبری دی کہ خیبرپختونخواہ محکمہ کھیل کی طرف سے انڈر 23 گیمز کے کھلاڑیوں کو کیش انعام دیے جا رہے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ قائداعظم گمیز میں سلور میڈل لینے پر20 ہزار نقد انعام بھی دیا جارہا ہے۔ یہ سنتے ہی میں خوشی سے جھوم اٹھا۔ چونکہ حکومت کی طرف سے صرف ویزا دیا گیا تھا، باقی اخراجات خود برداشت کرنے تھے، تو ان پیسوں کے ساتھ کچھ اور رقم رشتہ داروں اور جاننے والوں سے ادھار لیکر ملائیشیا جانے کی تیاری شروع کردی۔
ملائیشیا پہنچ کر 4 مارچ کی صبح رنگ نمبر 1 پر پاکستان بمقابلہ بھارت لکھا ہوا دیکھ کر دل جوش مارنے لگا۔ مقابلہ شروع ہوا تو میں نعرہ تکبیر بلند کرکے میدان میں کود پڑا۔ چونکہ پہلا مقابلہ روایتی حریف بھارت کے کھلاڑی سے تھا، اس لیے دل و دماغ پر یہ جذبہ تھا کہ جیت ہر صورت یقینی بنانی ہے۔ بالآخر انڈیا کو 48:18 سے شکست ہوئی جس پر خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کے بعد مقابلہ ہوا نیپال کے ایشن براؤن میڈلسٹ کھلاڑی سے، جسے سخت ترین مقابلہ کے بعد 20:18 کے پوائنٹ سے شکست دے دی۔ تیسرے مقابلے میں 11:02 سے کامیابی حاصل کی اور فائنل میں رسائی پکی کرلی۔ لیکن بدقسمتی سے آسٹریلیا کے کھلاڑی سے 26:24 کے پوئنٹ سے ہار گیا، اور یوں انٹرنیشنل ملائیشین اوپن تائیکوانڈو چمپیئن شپ میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ اس کامیابی پر حال میں ہر طرف تالیوں کی گونج تھی، بہترین مقابلہ کرنے پر شائقین نے خوب داد دی۔
لیکن میرا خواب ابھی پورا نہیں ہوا، کیونکہ میں پاکستان کےلیے اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کرلانا چاہتا ہوں۔
یہ ہمارے ایک قومی اولمپئین کی جدوجہد کی داستان ہے۔ یقیناً اگر محمد اویس جیسے باہمت نوجوانوں کی سپورٹ کرکے حوصلہ افزائی کی جائے تو یہ غربت کے مارے لوگ بھی اس ملک کےلیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے نوجوان جو کسی نا کسی فیلڈ میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں، لیکن محمد اویس کی طرح ان کی قابلیت اور محنت کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کچھ کر دکھانے کے باوجود بھی وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے وہ پذیرائی نہیں ملتی جو ان کا حق ہے۔ (جب تک کہ میڈیا اس ایشو کو اجاگر نہ کرے)
مگر انتہائی خوشی کی بات ہے کہ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی محمد اویس جیسے ستارے امید کے دیئے روشن رکھتے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان اور کھیل سے منسلک ادارے ان کی حوصلہ افزائی کریں، اور ان کی صلاحتوں کو نکھاریں تو وہ اس ملک کے لیے آئندہ بھی مزید بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔