بچپن میں یہ کہانی آپ نے بھی سُنی ہو گی کہ ”چڑیا لائی دال کا دانہ اور چِڑا لایا چاول کا دانہ، پھر دونوں نے مِل کر کھِچڑی پکائی اور خُوب مزے سے کھائی“۔ مَیں یہ کہانی بُھول گیا تھا۔ کل خواب میں ایک آنٹی قِسم کی چِڑیا سے مُلاقات ہوئی۔آنٹی چِڑیا گھونسلے سے باہر لان میں کُرسی پر بیٹھی تھی، سامنے میز پر پڑی طشتری میں دال کا دانہ چڑیا کی خُوشحالی کی چُغلی کھا رہا تھا۔ میری اُس سے سوالاً جواباً جو گفتگو ہُوئی ملاحظہ فرمائیں۔
س۔ آپ آرام دہ کُرسی پر بیٹھی ہیں۔ آپ کے پاس دال کا دانہ بھی ہے۔ اِس کے باوجود آپ اُداس دِکھائی دے رہی ہیں۔ خیر تو ہے؟
ج۔ ” خیر نہیں ہے ۔ مَیں اور میرا چِڑا تین دِن پہلے اپنی اپنی ڈیوٹی پر گئے تھے ۔ مَیں شام کو ہی دال کا دانہ لے کر گھر واپس آگئی تھی، لیکن میرا چِڑا ابھی تک نہیں آیا ۔ میرے چار چھوٹے بچے گھونسلے میں الگ پریشان بیٹھے ہیں اور مَیں گھونسلے سے باہر اپنے چِڑے کا انتظار کر رہی ہُوں۔ اُداس نہ ہُوں تو اور کیا کروں؟ چِڑا چاول کا دانہ نہ لایا تو کھِچڑی کیسے پکے گی؟ کھِچڑی پر لعنت بھجیں، مُجھے تو اپنے مجازی خُدا کی جُدائی کا غم کھائے جا رہا ہے“۔
س۔ کیا کبھی پہلے بھی ایسا ہُوا ہے؟
ج۔ ” جوانی میں تو کئی بار ایسا ہُوا لیکن مَیں مشرقی چڑیا ہُوں ۔مَیں نے اُس کی ہمیشہ تابعداری کی لیکن اب میرا چِڑا کافی سُدھر گیا ہے ۔ اب وہ پرائے گھروں میں تاک جھانک نہیں کرتا “۔
س۔ پھر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
ج: ” میرے مُنہ میں خاک !۔ مَیں پریشان ہُوں کہیں اُسے کوئی چِڑی مار پکڑ کر نہ لے گیا ہو۔ پہلے بھی دو تین بار ایسا ہُوا لیکن مَیں نے اپنا زیور بیچ کر اپناسُہاگ بچا لِیا ۔ سدا سُہاگن رہنے کے لئے ، مَیں ہر بار چِڑی مار سے ” مُک مُکا“ کرلیتی تھی۔ مشرقی بیویوں کو شوہروں کے لئے قُربانی تو دینا ہی پڑتی ہے“۔
س۔ تین دِن سے آپ اور آپ کے بچے بُھوکے بیٹھے ہیں ۔ آپ اڑوس پڑوس سے چاول کا دانہ اُدھار مانگ کر بھی تو کھِچڑی پکا سکتی تھیں؟
ج۔ ” اِسبغول تے کُجھ نہ پھول۔ اڑوس پڑوس میں بھی بُھوک کا راج ہے ۔ اگر چاول کا دانہ ہے تو دال کا دانہ نہیں اور اگر دال کا دانہ ہے تو چاول کا نہیں ۔ ہر چِڑیا اور چِڑے کو اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کی پڑی ہے ۔ پڑوسیوں سے ہمدردی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا ۔ یوں بھی ہماری عادتیں اِنسانوں سے مختلف ہیں ۔ ہم محنت سے روزی کماتے ہیں اور ہمیں کسی سے مانگتے ہُوئے شرم آتی ہے ۔ مُجھے جہیز میں ایک کشکول ضرور مِلا تھا لیکن میرے غیرت مند چِڑے نے ہنی مون سے پہلے ہی وہ کشکول توڑ دِیا تھا ۔ میرے میکے والے اپنے غیرت مند داماد سے کافی عرصہ تک ناراض رہے ۔ پِھر اُنہوں نے صُلح کر لی تھی“۔
س۔ آپ کی عُمر تو بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے ۔ آپ کی اولاد کو اِس وقت جوان ہونا چاہیے ؟
ج۔ ” اِک تِیر میرے سِینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔ تین بیٹے تھے ۔ ایک اپنی بیوی کو لے کر دُبئی چلا گیا اور دوسرے نے لندن میں جا کر شادی کرلی“۔
س۔ اور تیسرا؟
ج۔ ” تیسرا ، پڑوس میں اپنی بیوی کے ساتھ خُوشحال زندگی بسر کر رہا ہے ۔ کبھی مِلنے بھی نہیں آیا۔ ایک بار مَیں گئی تو اُس نے بیوی سے کہلوا دِیا کہ ”گھونسلے میں نہیں ہے“۔ لعنت ہے ایسے بیٹوں پر۔ زن مُرِید کہیں کے!۔ اگر مُجھے پتہ ہوتا تو تِینوں کو پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ کر مار دیتی۔ نا خلف کہیں کے !“۔
س۔ جب کبھی دال کا دانہ یا چاول کا دانہ نہ مِلے تو آپ اور آپ کے اہلِ گھونسلہ کیا کرتے ہیں؟
ج۔ ” صبر کرتے ہیںاور کیا کرتے ہیں؟ غریب اِنسانوں کی طرح پانی پی کر بُھوکے سو جاتے ہیں۔ جب ایک ایک ، ڈیڑھ ڈیڑھ پاﺅ اناج کھانے والے غریب لوگ بُھوکے سو سکتے ہیں تو ہماری خوراک تو بہت تھوڑی ہوتی ہے “۔
س۔ آپ کے میاں کوئی باقاعدہ “Job” کیوں نہیں کر لیتے؟ آپ کی بھی مشقّت سے جان چُھوٹ جائے گی۔ گھر بیٹھ کر راج کریں؟
ج۔ ” کوئی ڈھنگ کا کام ہی نہیں مِلتا میرے چِڑے کو۔ ایک بار کُچھ باریش بزرگ چِڑے آئے تھے ۔ مجھے وہ علاقہ غیر کے معلوم ہوتے تھے ۔ اُن کے پاس غیر مُلکی کرنسی بھی تھی۔ وہ نوٹوں سے بھرا ایک بریف کیس میرے چِڑے کو دینے کو تیار تھے لیکن ……..!“۔
س۔ لیکن کیا؟
ج۔ ” غیر مُلکی کرنسی سے بھرا بریف کیس کھولا گیا تو میرے چِڑے کا ایمان ڈگمگایا لیکن ، مَیں اُس پر بہت ناراض ہُوئی اور کہا کہ ”نا مُراد پرندے اگر تُم نے یہ گِھناﺅنا کام کِیا تو مَیں تم سے طلاق نہیں لوں گی البتہ بچوں سمیت زندہ جل مروں گی!“۔
س۔ ایسی کیا خطرناک شرط رکھی تھی علاقہ غیر کے بزرگ چِڑوں نے؟
ج۔ ”وہ میرے چِڑے سے کہہ رہے تھے کہ ”خُود کش حملہ آور بن جاﺅ۔ سِیدھے جنّت میں جاﺅ گے اور دُنیا میں تُمہارے بیوی بچے عیش کریں گے“ ۔ مَیں نے اُن بزرگ چِڑوں کو خوب ڈانٹا اور کہا کہ ”ایسی دولت میرے کِس کام کی جو مُجھے اور میرے بچوں کو یتیم کر دے؟ ہم غریب ہی سہی لیکن مَیں اپنے مجازی خُدا کو حرام موت نہیں مرنے دوں گی“۔
س۔ پِھر کیا ہُوا ؟
ج۔ ” پِھر کیا؟ وہ بزرگ چِڑے مایوس ہو کر چلے گئے اور اُس کے بعد مَیں نے اپنے چِڑے کی اِتنی ٹھکائی کی جتنی اُس کی جوانی میں غیر وں کے گھونسلوں میں تاک جھانک کرنے پر کرتی تھی۔ بھلا ہم اپنے ہم جَنسوں پر خُود کش حملہ کر کے اُن کی جان کیوں لیں؟ یہ تو اِنسانوں کے کام ہیں اور ہم تو معصوم پرندے ہیں۔ عدم تشدد کے قائل“۔
س۔ چِڑیا ، چِڑا برادری کا کوئی سردار یا بادشاہ بھی ہوتا ہے؟
ج۔ ” ہوتا ہے؟ لیکن مَیں اور میرا چِڑا سیاست سے ہمیشہ دَور رہتے ہیں ۔ سیاست میں خُون خرابہ بہت ہوتا ہے۔ بھلا ہم کسی کے لئے ”آوے ای آوے“ اور کسی کے خلاف ” گو فلاں گو“ کا نعرا کیوں لگائیں؟ یہ بھی کوئی کام ہے بھلا؟ جب اِس طرح کی صورت پیدا ہوتی ہے تو ، مَیں تو اپنے چِڑے اور بچوں کو لے کر میکے چلی جاتی ہُوں“۔
س۔ کبھی آپ کے دِل میں خواہش پیدا ہُوئی کہ آپ اور آپ کے اہلِ گھونسلہ اِنسان ہوتے؟
ج۔ ” جی نہیں! ہمارے دِل میں اِس طرح کی خواہش کبھی پیدا نہیں ہُوئی۔ اِنسان ہوتے تو حُکمرانوں سے روٹی، کپڑا اور مکان کی بھیک مانگتے اور جب نہ مِلتی تو اُن کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرتے، جلوس نکالتے۔ اِس طرح کے مظاہرے کرنے پر اِنسانوں کو کیا مِلتا ہے جو ہمیں مِل جاتا؟“۔
س۔ آپ کب تک یہاں بیٹھی رہیں گی؟
ج۔ ” جب تک میرا چنّ ماہی اور ڈھول سپاہی چِڑا ، واپس نہیں آ جاتا۔ چاول کا دانہ مِلے نہ مِلے ہم کھِچڑی کھانا چھوڑ دیں گے۔ گھاس کھا لِیا کریں گے ہوا پھانک کر زندہ رہ لیں گے۔ آپ یہ دال کا دانہ اپنے لئے لے جائیں، اِس دانے کی آپ کو مُجھ سے زیادہ ضرورت ہے“۔
مَیں نے دانہ اُٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھانا چاہا تو چِڑا چاول کا دانہ لے کر آگیا۔ دانہ طشتری میں رکھ کر اُس نے میرے ہاتھ کو اپنی چونچ سے زخمی کر دِیا۔ پِھر میری آنکھ کُھل گئی۔