کراچی (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے بحریہ ٹائون کی 358ارب روپے کی پیشکش کو نامعقول قرار دیتے ہوئے سرکاری زمین بحریہ ٹاؤن سے واپس لینے کا حکم د یدیا ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی عملدرآمد بنچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں عملدرآمد کیس کیسماعت کی۔دوران سماعت بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو 358 ارب روپے دینے کی پیشکش کی ۔وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا بحریہ ٹاؤن زیادہ سے زیادہ358 ارب روپے دے سکتا ہے ۔600 ارب روپے کا وعدہ نہیں کیا جا سکتا ، وہ وعدہ کر سکتے ہیں جو پورا بھی کر سکیں ۔بحریہ ٹاؤن16896 ایکڑ کیلئے 358 ارب روپے ہی دے سکتا ہے ۔ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ تبادلے کے 7422ایکڑ کیلئے 150 ارب اور بحریہ ٹائون کے قبضے میں باقی 9 ہزار ایکڑ سے زائد زمین کیلئے 208 ارب روپے آٹھ سال کے دوران قسطوں میں ادا کئے جائیں گے ۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دئیے یہاں کوئی ٹماٹر نہیں بک رہے ۔ یہ پیشکش معقول نہیں ۔ قانون کے تحت غیرقانونی قابض زمین نہیں بیچ سکتا۔وکیل علی ظفر نے بتایا 2015کے تخمینے کے مطابق زمین کی فی ایکڑ قیمت بیس لاکھ روپیہ ہے ۔ نیب نے اپنی رپورٹ میں بھی یہی قیمت دکھائی ہے جبکہ بحریہ ٹائون نے ایک کروڑ 67لاکھ روپیہ فی ایکڑ کا تخمینہ لگایا جو اصل قیمت سے تین سو گنا زیادہ ہے ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہم زمین فروخت ہی نہیں کریں گے ،کیا سرکاری زمینوں کی ہول سیل لگی ہے ،قیمت ساڑھے چار کروڑ روپیہ فی ایکڑ بنتی ہے ، نہیں لینی تو نہ لیں۔عدالت عظمٰی نے پیشکش تحریری طورپر جمع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے قرار دیا کہ اگلی سماعت پر بحریہ ٹائون کی پیشکش پر تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کردیا جائے گا۔عدالت نے سروے آف پاکستان کی طرف سے اضافی زمین بحریہ ٹائون کی ملکیت ظاہر کرنے پر برہمی کا اظہار کیا ۔ عدالت نے ڈپٹی کمشنر ملیر کو تمام اضافی زمین کو قبضے میں لیکر ناظر سندھ ہائیکورٹ کے حوالے کرنے کی ہدایت کی اور دو ہفتے میں عملدرآمد رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔عدالت نے پابندی کے باجود پلاٹس کی خرید و فروخت جاری رکھنے پر پرزم مارکیٹنگ کے عہدیداروں کو طلب کرلیا اور قرار دیا کہ ریاست کی زمین تھرڈ پارٹی کو بھیجنا فراڈ ہے ۔ پولیس اور متعلقہ ادارے فراڈ کرنے والوں کیخلاف پرچے درج کرکے کارروائی کرے ۔پراسکیوٹر جنرل نیب نے کہا ریفرنس بنا کر ہمیں بھیجا گیا ہے لیکن مجموعی طور پر پانچ ریفرنسز بنانا ہوں گے ۔عدالت نے نیب کو اپنی کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 29 جنوری تک ملتوی کر دی ۔عدالت عظمیٰ نے کراچی میں رہائشی عمارتوں کے کمرشل استعمال پر مکمل پابندی لگاتے ہوئےایس بی سی اے کو کمرشل عمارتوں کے این او سی جاری کرنے سے روکدیا جبکہ تیس سے چالیس سال کے دوران بننے والے شادی ہالز،شاپنگ سنٹرزاور پلازوں کی تفصیلات طلب کر لیں ۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے شہر میں غیر قانونی شادی ہالز، شاپنگ مالز اور پلازوں کی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت دوران جسٹس گلزار نے جام صادق پارک سے تجاوزات 4 ہفتوں میں ختم کرنے کا حکم دیا اور ریمارکس دیے کہ شہر میں ہر قسم کی تجاوزات فوری گرائی جائیں۔جسٹس گلزار نے یہ بھی حکم دیا کہ جو عمارت اصل ماسٹر پلان سے متصادم ہے اسے گرا دیں، شہر کو 40 سال پہلے والی پوزیشن میں بحال کریں، پارک،کھیل کے میدان اور ہسپتالوں کی اراضی واگزار کرائی جائے ۔ جسٹس گلزار نے ڈی جی ایس بی سی اے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کام نہیں کر سکتے تو عہدے پر کیوں چمٹے بیٹھے ہو۔ حد ہو گئی سرکاری کورٹرز پر 8,8 منزلہ عمارتیں بنائی جا رہی ہیں، آپ لوگوں نے کیا چوڑیاں پہن رکھی ہیں؟ سب نے ملی بھگت سے مال بنایا، شہر تباہ کردیا،کیا یہ ان کے باپ کا شہر ہے جو مرضی آئے کریں ۔ لوکل گورنمنٹ سے شہر نہیں چلتا تو سندھ حکومت ٹیک اوور کرلے ۔ کیا شہر کو وفاق کے حوالے کردیں؟ عدالت نے حکم دیا کہ بندوق اٹھائیں، کچھ بھی کریں، عدالتی فیصلے پر عمل کرائیں ورنہ ڈی جی، ایس بی سی اے کو گھر بھیج دیں گے ۔