سپریم کورٹ نے رہائشی علاقوں میں قائم اسکولوں کی منتقلی کے لیے 3سال کا ٹائم فریم مسترد کردیا۔ سی ڈی اے سے پیشرفت رپورٹ بھی ایک مہینے میں طلب کرلی گئی۔جسٹس عظمت سعید نے کہا آئندہ سماعت تک ایک بھی سرکاری دفتر رہائشی علاقوں میں نہ ہو۔
رہائشی علاقوں میں کمرشل سرگرمیوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔
سی ڈی اے کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کے آغاز پر 1695عمارتوں کا کمرشل استعمال کیا جا رہا تھا، اب رہائشی علاقوں میں 641 عمارتیں کمرشل استعمال میں ہیں جن میں 359اسکولز، 90ہاسٹلز،100گیسٹ ہاؤسز ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سخت کارروائی ہونے تک معاملات حل نہیں ہوں گے، سی ڈی اے کمرشل استعمال والی پراپرٹی کو واپس لے جرمانے کرے ،غلط کام سے روکیں تو 100یا 200 بچوں کو لے کر احتجاج ہماراکلچر بن چکا ہے ،غیرقانونی اقدامات پر کارروائی ہوتو بھی سول سوسائٹی والے احتجاج کرتے ہیں ،ہرمسئلے پر مصلحت اختیار کرنا ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے، اب لوگ وکلا اور ججز کو گھر کرائے پر دینے سے ڈرتے ہیں ۔
سپریم کورٹ نے اسکولوں کی منتقلی کے لیےتین سال کا ٹائم فریم مسترد کردیا اور کہا کہ کیا عدالت قانون پر کارروائی کے لیے 3سال انتظار کرے گی؟ کیس کی سماعت دسمبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی ۔