اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں اب ملک اشاروں پر نہیں چلے گا۔
جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ میں فنڈز کے بارےمیں معلومات موجود ہیں، ان لوگوں نے چندہ اکٹھا کیا، 35 ہزار لوگوں نے دھرنا قائدین کو چندہ دیا، یہ کیوں فرض نہ کریں ہمارے دشمنوں نے یہ پیسہ دیا، پاکستان میں ججز کو نشانہ بنانا جائز ہے، معزز چیف جسٹس کو گالیاں دی جاتی ہیں مگر کسی کو پرواہ نہیں، ہم نے آئین کی بات اٹھائی ہے، مجھے کرسی پرانصاف کے تقاضوں کے لئے بٹھایاہے، میں انصاف نہیں کرسکتا کیوں کہ مجھے آپ کا تعاون حاصل نہیں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ انصاف کی ضرورت طاقتور کو نہیں بلکہ مظلوم کو ہوتی ہے، ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے ظالم کے ساتھ نہیں لیکن جو گاڑیاں جلائیں تشدد کریں،راستے بند کریں ان پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھاتا، ایسے لوگ ہمارے چہیتے ہیں، کیا زندگی اور آزادانہ نقل و حرکت آئینی حق نہیں ہے؟، دھرنے والوں نے ملک کاکروڑوں کانقصان کیا، غلیظ زبان استعمال کی، یہ اسلام کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ لوگ اسلام سے نفرت کریں۔
جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ کیا دھرنے کے لیڈر کے فنڈز کا آڈٹ کرلیاگیا ؟، کیا فنڈز کو ثابت کرنے کی دستاویزہے ، وزارت دفاع کے نمائندے نے کہا کہ آئی ایس آئی ایک انٹیلی جنس ادارہ ہے اور دھرنے کے لیڈر خطیب ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ایجنسیوں کو نہیں معلوم دھرنے کے لیڈرٹیکس دیتے ہیں یا نہیں، ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں۔ کیا یہ سرکاری خطیب ہیں؟، اس خطیب کو تنخواہ کون اداکرتاہے؟، کیا غیبی قوتیں معاوضہ ادا کرتی ہیں؟، کیا دھرنے والے لیڈران کے بینک اکاؤنٹس ہیں؟، 18فروری کے حکم نامے میں ہم نے رپورٹ طلب کی، جس کے بعد سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ کو غیر اطمینان بخش قرار دیا تھا، کیا دوبارہ رپورٹ نہیں آنا چاہیے تھی؟ آپ کس طرح ملک چلا رہے ہیں، جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر مکمل معلومات کے ساتھ پیش ہوں۔








