پشاور: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ریاست کی سب سے کم ترجیح عدلیہ ہے اور میں تنہا اس نظام کو درست نہیں کرسکتا۔
پشاور میں ضلعی بار کے صدور سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ لوگ تنقید کرتے ہیں ہم فیصلہ جلد اور قانون کے مطابق نہیں کررہے، میں قانون بنانے والا نہیں اسے نافذ کرنے والا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست کی سب سے کم ترجیح عدلیہ ہے تو ذمے دار میں نہیں، 1861 کا قانون تبدیل نہ ہونے کی ذمے دار سپریم کورٹ نہیں، ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے لیکن میں تنہا اس نظام کو درست نہیں کر سکتا، انصاف تول کر دیا جانا چاہیے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، ہم نے مداخلت شروع کر دی ہے، اب ہم بھی ریاست میں آتے ہیں، ججز کی ذمہ داری انصاف کی فراہمی ہے، سچ جھوٹ کا فیصلہ کرنا ججز کا کام نہیں۔
19 مارچ کو ریٹائر ہونے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس دوست محمد خان کی جانب سے فل کورٹ ریفرنس قبول نہ کرنے سے متعلق قیاس آرائیوں کے بارے میں چیف جسٹس نے بتایا کہ دوست محمد خان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے پوچھا کس دن ریفرنس لینا پسند کریں گے، انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ والے دن لوں گا، لیکن پھر انہوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر ریفرنس لینے سے انکار کردیا، میں نے انہیں فون کیا لیکن انہوں نے فون کا جواب بھی نہ دیا، اگلے روز جسٹس دوست محمد خان ہم سے ملنے آگئے، ہم نے ریفرنس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ذاتی مصروفیات ہیں جس کی وجہ سے تقریر تیار نہیں کرسکا، میں نے انہیں تقریر لکھنے کر دینے کی پیش کش کی، لیکن انہوں نے انکار کردیا، انہیں ڈنر اور لنچ کی پیش کش کی لیکن انہوں نے اس سے بھی انکار کردیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ اور نہ ہی جسٹس دوست محمد خان نے آج تک وضاحت کی کہ انہوں نے ریفرنس کیوں قبول نہیں کیا، ان کی تقریر دکھانے والی بات قطعی غلط ہے، پھر بھی میں اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اس پر معذرت کرتا ہوں اور ازالہ کرنے کے لیے تیار ہوں، صدق دل سے معافی مانگنے پر معاف کردینا چاہیے، ایک فیصلے میں ذکر کیا جب اللہ تعالی نے آدم کو بے دخل کیا تو ان کو بھی صفائی کا موقع دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں مجھ پر الزامات لگائے گئے، بار نے مجھے اتنا گھٹیا، نیچ اور کم ظرف سمجھ لیا کہ اپنے جانے والے دوست اس طرح رخصت کروں گا کہ ساری زندگی اس پر ندامت ہوتی رہے، میں ان سے کبھی تقریر دکھانے کا نہیں کہا۔ جسٹس دوست محمد کل آجائیں انہیں فل کورٹ ریفرنس دینے کے لیے تیار ہوں۔