پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور جہاں کئی حساس موضوعات پر سچ بولے وہاں میڈیا کی بھی کھل کر کلاس لی۔ بہت اعلیٰ پریس کانفرنس تھی۔ بڑے پھنے باز صحافیوں کی بولتی بند کرادی۔ سچ بہر حال اپنی حقیقت منوا کر رہتا ہے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کو جھوٹ سے شدید نفرت تھی۔ ایک نوجوان نوکری کے سلسلے میں قائداعظم تک پہنچا اور ان سے عرض کیا ’’جناب میں بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ ہوں‘ آپ فلاں صاحب کو میری سفارش کر دیں گے تو مجھے نوکری مل جائے گی‘‘ قائداعظم نے انکار سے پہلے نوجوان کا انٹرویو لینا شروع کر دیا‘ آپ نے اس سے پوچھا ’’کیا تعلیم کے (دوران) تم سپورٹس میں حصہ لیتے رہے ہو‘‘نوجوان نے جواب دیا ’’نہیں‘‘ قائداعظم نے پوچھا ’’کیا تم ادبی سرگرمیوں میں شریک رہے‘‘ نوجوان نے انکار میں سر ہلا دیا۔ قائداعظم نے پوچھا ’’کیا تم کسی دوسری اچھی سرگرمی میں حصہ لیتے رہے‘‘ نوجوان نے اس بار بھی انکار میں سر ہلا دیا۔ قائداعظم برا منا گئے اور انہوں نے کہا ’’تم اتنی نالائقی اورسستی کے باوجود مجھ سے توقع کرتے ہو میں تمہاری سفارش کروں گا‘‘نوجوان نے عاجزی سے جواب دیا ’’جناب آپ میری سفارش کریں یا نہ کریں لیکن میں اپنے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتا‘‘ نوجوان نے یہ کہا اور قائداعظم کے دفتر سے نکل گیا۔ قائداعظم نے نوجوان کو واپس بلایا اور اس سے کہا ’’میں زندگی میں پہلی مرتبہ اپنا اصول توڑ کر تمہاری سفارش کروں گا لیکن تمہیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا‘‘ نوجوان نے عرض کیا ’’جناب آپ حکم کیجئے‘ قائداعظم نے فرمایا ’’تم زندگی میں آج کی طرح ہمیشہ سچ بولو گے‘‘۔۔۔اور آج پاکستان کا یہ حال ہو چکا ہے کہ مبینہ حرام کی کمائی سے بنی کوٹھیوں کی پیشانی پر بڑی ڈھٹائی سے ماشا اللہ کی تختی لگی ہوتی ہے۔ حرام کے مال کو بھی نظر بد و حسد سے خطرہ لاحق ہے؟ ماشا اللہ یا درود شریف لکھنے سے کوٹھی مسلمان ہو جاتی ہے؟ عمارتوں کے در و دیوار پر آیات و کلمات لکھنے سے عمارتیں محفوظ ہو جاتی ہیں؟ سواریوں پر قرآنی آیات لٹکانے سے حادثات رک جاتے ہیں؟ دکانوں پر ھذا من فضل ربی کی تختی لٹکا دینے سے دو نمبری ختم ہو جاتی ہے؟ کیا معلوم نہیں کہ حرام کو حلال بنانے سے بندہ کافر ہو جاتا ہے۔ مردار پر تکبیر پڑھنے سے مردار ذبیحہ کہلاتا ہے؟خالق سے بھی دو نمبری کرتے شرم نہیں آتی؟ کلمہ کے نام پر حاصل کی گئی سرزمین پردو نمبری کا نظام؟ ملک بنانے والے تو راہ آزادی میں جانیں ہار گئے اور پانے والے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لٹانے میں لگ گئے۔ سیاستدان ایک نمبر ہوتے تو شب خون مارنے والوں کو دو نمبری کرنے کا موقع نہ ملتا۔ سیاستدانوں نے اپنا وقار خود کھویا ہے اور جمہوریت کو کبھی پنپنے کا موقع نہیں دیا اور آج سیاستدانوں کی وقعت چپڑاسی سے زیادہ نہیں۔ دو نمبری کردار نے سیاستدانوں کواس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ملک کا منتخب وزیراعظم حکم نامہ صادر کرتا ہے اور ماتحت ادارہ مسترد کر دیتا ہے۔ جب سیاستدانوں کے اپنے گھر کے حالات خراب ہوں، تو ماتحت ادارے بھی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ڈان لیکس گھر کے اندر سے ہوئی۔ جب فوج سے جان بوجھ کر چھیڑچھاڑ کی جائے گی تو رد عمل تو آئے گا۔ مسلم لیگ نواز پہلے بھی دو ٹرم مکمل نہ کر سکی، سوچا تیسری مرتبہ بلنڈر نہیں کرے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ایک طرف ڈان لیکس دوسری طرف پاناما لیکس اور اوپر سے بھارتی جندل سے ملاقات اور مودی کو گھر دعوت دے کر بلانا۔آمریت کو سر اٹھانے کا موقع خود سیاستدان فراہم کرتے ہیں۔ کلمہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان کو جب بدنیتی سے چلایا جائے گا تو ایسا ہی چلے گا جیسا ستر سال سے رینگ رہا ہے۔ حکومت نے ھذا من فضل ربی کی تختی کا خوب فائدہ اٹھایا،الا ما شا اللہ پاکستانیوں میں جھوٹ اور کرپشن کا سرطان نیچے سے اوپر تک سرایت کر چکا ہے۔محض چہرے تبدیل کرنے سے نظام تبدیل نہیں ہو گا۔ نظام خود کو تبدیل کرنے سے بدلے گا۔نظام تو بہر حال بدل کر رہے گا ایک دن۔