فیصل آباد(ویب ڈیسک )بھارت کی فوجی جارحیت سے نمٹنے کے لئے افواج پاکستان کے پاس مناسب اوربہترین وسائل موجود ہیں لیکن اس کی آبی جارحیت سے بچاؤ کے لئے پاکستان کی کسی حکومت نے آج تک کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ دریائے راوی میں ہر دس کلومیٹر پر دیواریں بنا کر پانی ذخیرہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے،
عملدرآمد سےراوی دوبارہ بحال اور کنارے پر بنکاک ، دبئی طرز پر نئے شہر آباد کئے جا سکتے ہیں،اسی وجہ سے ہر سال جب بھارت کی جانب سے پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑا جاتا ہے اس سے یا تو سیلاب کی صورت میں جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر یہ سارا پانی سید ھا سمندر میں جا کر ضائع ہو جاتا ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق اس پانی کو ذخیرہ کر کے ناصرف آبپاشی کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں بلکہ اسے زیر زمین بھیج کر(Recharge) پانی کا معیار بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ بارانی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر رائے نیاز”واٹر مینجمنٹ ” کے حوالے سے عالمی شہرت کے حامل ہیں اور دنیا کے کئی ممالک میں خدمات سرانجام دینے کے علاوہ کئی عالمی اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔2010 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سیلابی پانی کی تباہ کاریاں جاری ہیں، قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹرجنرل کیپٹن (ر) محمد آصف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب تک کم از کم تین لاکھ سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوچکے ہیں، تیس افراد کے ہلاک ہونے کی سرکاری طور پر تصدیق کی جا چکی ہے،جب کہ ڈیڈھ لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔نجی نیوز ایجینسی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیپٹن ریٹائرڈ محمد آصف کا کہنا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والے اصل نقصانات موجودہ نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں اور سیلابی نقصانات کی تفصیل پانی اترنے کے بعد کیے جانے والے سروے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی۔ان کے مطابق پنجاب کے بیشتر اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں لیکن نو اضلاع میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں کئی دریا اور ندی نالے بہتے ہیں، پنجاب میں اب تک دریائے چناب میں آنے والے ایک بڑے سیلابی ریلے سے بھی کافی نقصان ہوا ہے، بھارت سے آنے والے پانی کی وجہ سے ستلج اور راوی کے دریاؤں میں بھی سیلاب آیا ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ نقصان کشمیر کے علاقے سے پاکستان میں داخل ہونے والے نالوں میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے ہوا ہے،صرف پانچ ہزار کیوسک کی گنجائش رکھنے والے ایک نالے میں اس مرتبہ چالیس ہزار کیوسک تک پانی گزرا ہے، سمبڑیال ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں کے رہائشی نیامت نے بتایا کہ اس سیلاب کی وجہ سے ان کے مویشیوں کے لیے چارے کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ادھے نالہ ڈیک میں آنے والا بڑا سیلابی ریلا نارووال اور سیالکوٹ کے علاقوں میں تباہی مچاتا ہوا اب مریدکے اور شیخوپورہ کے علاقوں تک پہنچ چکا ہے، یہاں پاکستان کی مشہور سڑک جی ٹی روڈ کے آس پاس سیلابی پانی نظر آ رہا ہے۔ان سیلابوں کے باعث ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیںادھر قصور کے ضلعی رابطہ افسر سید جاوید اقبال بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دریائے ستلج میں گنڈا پور کے مقام پر بھارت سے پاکستان میں سوموار کی دوپہر داخل ہونے والے پانی کی مقدارایک لاکھ کیوسک سے بھی زیادہ تھی جب کہ پچھلے پانچ سالوں میں یہ مقدارپچاس سے پچھتر ہزار کیوسک کے درمیان رہی تھی، ’اس صورتحال کے پیش نظر قصور میں کنٹرول روم بنا دیا گیا ہے، مساجد میں اعلانات شروع ہیں، دریا کے کنارے حساس علاقوں میں آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پرمنتقل کیا جا رہا ہے، سرکاری عمارتوں کو خالی کروا کر یہاں ریلیف کیمپ لگا دیے گئے ہیں جب کہ اُدھر دریا کے پیٹ میں بسنے والے ایسے لوگ جو سیلابی پانی سے متاثر ہوئے ہیں، ان کی امداد کے لیے خیمے، خوراک اور ادویات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔‘‘ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اعتراف کیا کہ دریائے ستلج کے پیٹ میں سرکاری اسکول اور یونین کونسل کے دفاتر سمیت سرکاری عمارتیں بھی موجود ہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب دریاؤں کے کناروں کی حفاطت کرنے اور ان میں آبادی کی منتقلی کو روکنے کے لیے حکومت ایک نیا قانون بنانے جا رہی ہے۔جنوبی پنجاب میں بھی لوگوں کو سیلابی صورتحال کا سامنا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موجود بہت سے لوگوں کو گلہ ہے کہ حکومت ان کی مدد نہیں کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم اے کے ڈی جی محمد آصف کہتے ہیں کہ حکومت نے متاثرہ علاقوں میں جگہ جگہ امدادی کیمپ لگائے ہیں، یہاں پر متاثرہ افراد کے لیے خوراک اور ادویات کے علاوہ ان کے جانوروں کے لیے چارے کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ان کے بقول بعض لوگ ان کیمپوں پر آنے کی بجائے ہزاروں کی تعداد میں بکھرے ہوئے گھروں ڈیروں پر گھر گھر امدادحاصل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں اور محدود انفراسٹرکچر کی وجہ سے ہر دروازے تک پہنچنا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے،’ کئی علاقوں میں سڑکیں بہ گئی ہیں،کم سطح کے پانی میں کشتی بھی نہیں چل سکتی ہے اور ہم پیدل جا کر امداد دے رہے ہیں۔‘ یاد رہے پنجاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے کے پاس ہیلی کاپٹر کی سہولت نہیں ہے۔پنجاب کے چیف میٹریالوجسٹ محمد ریاض نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وقت دریائے سندھ میں گدو کے مقام پر پانچ لاکھ کیوسک پانی کا ریلا گزر رہا ہے، یہاں پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ ادھردریائے راوی میں بلوکی کے مقام پر بھی اگلے چند گھنٹوں میں ایک لاکھ کیوسک اضافی پانی کا ایک ریلا گزرنے سے سیلاب کی سطح اونچے درجے تک پہنچ سکتی ہے۔ دریائے ستلج میں بھی اس وقت میڈیم فلڈ لیول ہے جب کہ درمیانے درجے کی سیلاب کی سطح پر بہنے والےدریائے چناب میں تریموں کے مقام پربھی پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں شدید سیلاب کا باعث بننے والی حالیہ بارشوں کا سلسلہ اب کافی کمزور پڑ چکا ہے تاہم ان کے بقول خلیج بنگال اور بحیرہء عرب میں بننے والے بارشوں کے ایک نئے سلسلے کی وجہ سے اگلے چوبیس گھنٹوں میں گوجرانوالہ، لاہور، راوالپنڈی، مالا کنڈ، ہزارہ، مری اور کوہاٹ میں بارش کا امکان ہے۔ ان میں سے بعض علاقوں میں موسلا دھار بارشیں بھی ہو سکتی ہیں۔