تحریر:جاوید چوہدری
’انسان دنیا کے گناہوں‘ دنیا کے جرائم اور دنیا کی غلطیوں کی سزا دنیا ہی میں بھگت کر جاتا ہے اور میں اس کی زندہ مثال ہوں‘‘ پروفیسر صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے‘ انہوں نے اپنے سفید سرپر مفلرلپیٹااور ٹشو سے گالوں کی جھریوں میں سرکتے آنسو پونچھنے لگے۔ آپ کو دنیا میں ایسے بے شمار بزرگ نظر آتے ہیں جن کے چہروں پر انتظار لکھا ہوتا ہے‘ یہ لوگ اپنے کمروں‘ گھروں کی بالکونیوں‘ دہلیزوں‘ گلیوں اور فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر دائیں بائیں اور اوپر نیچے دیکھتے رہتے ہیں۔میں اکثر سوچا کرتا تھا یہ بزرگ دائیں بائیں‘ اوپر نیچے کیا تلاش کرتے ہیں‘ یہ خلا میں کیا کھوجتے رہتے ہیں‘مجھے اس سوال کا جواب اسی ریٹائر پروفیسر نے دیا‘ ان کا کہنا تھا ’’ہم جیسے لوگ موت کے فرشتے کا انتظار کرتے رہتے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے ہمارے حصے کی موت بھی ہم سے روٹھ گئی ہے اور ابھی ہماری سزا ختم نہیں ہوئی‘‘ ان کا کہنا تھا ’’جب آپ کے سارے کام ختم ہو جاتے ہیں‘ جب زندگی کو آپ کی ضرورت نہیں رہتی اور جب آپ دنیا میں فالتو سے بن کر رہ جاتے ہیں تو پھر آپ گلی میں بیٹھ کر موت کا انتظار کرتے ہیں لیکن فرشتے آپ کے قریب سے گزر جاتے ہیں‘ اس وقت آپ کو معلوم ہوتا ہے آپ کی سزا ابھی باقی ہے‘ ابھی کچھ گناہ‘ کچھ جرم اور کچھ ایسی غلطیاں باقی ہیں جن کی سزا آپ نے ابھی تک نہیں بھگتی‘‘ انہوں نے اپنے یخ ٹھنڈے ہاتھوں سے کان رگڑے اور دکھی لہجے میں بولے ’’میں نے بھی زندگی میں ایک ایسی ہی غلطی کی تھی‘ میں اس غلطی کی 75فیصد سزا بھگت چکا ہوں اور25فیصد باقی ہے ۔ مجھے یقین ہے جب تک میںیہ 25فیصد سزا نہیں بھگتوں گا دنیا سے رخصت نہیں ہوں گا چنانچہ میں روزانہ صبح گھر سے نکلتا ہوں‘ صدر جاتا ہوں ‘وہاں ایک پرانی کوٹھی کے سامنے بیٹھ جاتا ہوں اور شام کو اٹھ کر گھر واپس آ جاتا ہوں‘‘ وہ دم لینے کیلئے رکے‘ میں نے وقفے کو غنیمت سمجھتے ہوئے پوچھ لیا ’’کیوں؟‘‘ انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا اور بولے ’’میں روز وہاں چیخیں سننے کیلئے جاتاہوں‘ مجھے یقین ہے جب تک اس گھر سے چیخیں نہیں اٹھیں گی میں فوت نہیں ہوں گا‘ میری سزا ختم نہیں ہوگی‘‘میں نے ان سے عرض کیا ’’جناب مجھے آپ کی بات ابھی تک سمجھ نہیں آئی‘‘ وہ مسکرائے اور مسکرا کربولے
’’میں پنجاب کے ایک تعلیمی بورڈ کا چیئرمین تھا‘ ایک بار ایف ایس سی کے پرچے ہوئے‘ امتحانات سے چند دن بعد مجھے پنجاب کی ایک اعلیٰ شخصیت نے بلایا‘ میں ان کے دفترگیا تو وہاں ملک کے ایک نامور قانون دان بھی بیٹھے تھے‘ میں جونہی صوفے پر بیٹھاتو اعلیٰ سیاسی شخصیت نے دفتر کو اندر سے کنڈی لگائی‘ ٹیلی فون آف کر دئیے اور میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئے‘ میں اس سلوک پر حیران رہ گیا‘ انہوں نے قانون دان کو بھی قریب بلا لیا اور اس کے بعد گویا ہوئے ’’ہم دونوں کے بچوں نے ایف ایس سی کے پرچے دئیے ہیں‘‘ ساتھ ہی انہوں نے جیب سے ایک پرچی نکالی‘ یہ پرچی میز پر رکھی اور دوبارہ بولے ’’یہ ان دونوں کے رول نمبر ہیں‘ ہم چاہتے ہیں ان بچوں کے نمبر اتنے آ جائیں کہ یہ دونوں میڈیکل کالج میں داخل ہو سکیں اور ہمارا یہ کام آپ نے کرانا ہے‘‘ اعلیٰ سیاسی شخصیت خاموش ہو گئی‘ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ’’جناب میڈیکل کالجوں میں وزیراعلیٰ کا کوٹہ ہوتا ہے‘ اگر نمبر کم بھی ہوں تو بھی آپ اس کوٹے کے ذریعے بچوں کو میڈیکل کالج میں داخل کرا سکتے ہیں‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’ ہم کر سکتے ہیں لیکن اس سے سیاسی بدنامی کا خدشہ ہے چنانچہ میں چاہتا ہوں ہمارے بچے میرٹ پر کالج میں داخل ہوں‘‘۔ میں نے اس وقت سوچا ‘میں انہیں صاف صاف انکار کر دوں لیکن سرکاری ملازم بہت کمزور مخلوق ہوتی ہے چنانچہ میں کمزوری کے باعث انکار نہ کر سکا‘ میں نے چٹ اٹھائی اور واپس آ گیا۔ میں دو تین دن تک سوچتا رہا لیکن نوکری کے ہاتھوں مجبور ہو گیا‘ میں نے دونوں بچوں کے پرچے اپنی مرضی کے ایگزامینر کو بھجوا دئیے اورایگزامینر نے انہیں دل کھول کر نمبر دے دئیے۔ جب یہ کام ہو گیا تو میں نے سوچا میرے اپنے بیٹے نے بھی ایف ایس سی کے پرچے دے رکھے ہیں چنانچہ وہ کیوں پیچھے رہے‘ میں نے اپنے بیٹے کو بھی اچھے نمبر دلا دئیے‘ نتیجہ آیااور ہم تینوں کے بیٹے میڈیکل کالج پہنچ گئے‘ میری اس خدمت کے بدلے اعلیٰ سرکاری شخصیت نے مجھے لاہور میں ایک پلاٹ الاٹ کر دیا‘ دو سال بعد میرا تبادلہ ہو گیا‘ سیاسی حالات تبدیل ہو ئے اور ہم تینوں کے رابطے ختم ہو گئے‘ میرا بیٹا نالائق تھا‘ اس نے گرپڑ کر ایم بی بی ایس کر لیا‘ میں نے سفارش کے ذریعے اسے سرکاری نوکری لے کر دے دی‘ وہ لاہور کے ایک ہسپتال میں ایمرجنسی وارڈ میں کام کرتا تھا‘ ایک دن اس کے پاس ایکسیڈنٹ کا کیس آیا‘ ایکسیڈنٹ میں ایک درمیانی عمر کا شخص بری طرح مضروب تھا‘ میرے بیٹے کو اس قسم کے کیس ہینڈل کرنے کا تجربہ نہیں تھالہٰذا زخمی دم توڑ گیا‘دوسرے دن جب اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں تو میں حیران رہ گیا‘ یہ وہی ماہر قانون تھا جس نے دس برس قبل مجھ سے اپنے بیٹے کے نمبروں میں اضافہ کرایا تھا‘
میں قدرت کے انتقام پر حیران رہ گیا‘ وہ شخص جس نے اپنے نالائق بیٹے کو ڈاکٹر بنوایا تھا وہ میرے نالائق ڈاکٹر بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا۔ بزرگ خاموش ہو گئے‘ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں‘ وہ رکے‘ انہوں نے لمبا سانس کھینچا اور دوبارہ بولے ’’میری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی‘ میرے دوبیٹے اور ایک بیٹی تھی‘ میرا بڑا بیٹا ڈاکٹر بن گیا‘ چھوٹے بیٹے نے ایم بی اے کیا اورایک ملٹی نیشنل کمپنی میں منیجر بن گیا‘ میں نے بیٹی کی شادی کر دی‘ داماد نالائق نکلا‘ اس نے میری بیٹی کو تنگ کرنا شروع کر دیا‘ وہ کاروبار کرنا چاہتا تھا‘ میں نے بیٹی کی تکلیف دیکھتے ہوئے وہ پلاٹ بیچ دیا اور یہ رقم میں نے اپنے داماد کو دے دی‘ دامداد نے رقم کاروبار میں لگائی‘ نقصان ہوا اور سارا سرمایہ ڈوب گیا۔ میرے دوسرے بیٹے کو ایک دن سینے میں درد ہوا‘ ڈاکٹروں کے پاس لے کر گئے تو پتہ چلا اس کے دل کی ایک رگ بند ہو چکی ہے‘ میرا بیٹااسے لاہور کے ایک مشہور کارڈیالوجسٹ کے پاس لے گیا‘ یہ کارڈیالوجسٹ امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آیا تھا‘ اس نے میرے بیٹے کا معائنہ کیا اور بائی پاس کا مشورہ دیا‘ میرے ڈاکٹر بیٹے کا مشورہ بھی یہی تھا‘ ہم نے آپریشن کی اجازت دے دی‘ امریکہ سے آنے والے ڈاکٹر نے آپریشن کیا لیکن میرا بیٹا آپریشن ٹیبل پر ہی فوت گیا‘ میں جب اپنے بیٹے کی نعش لے کر باہر آ رہا تھا تو میں نے ڈاکٹر سے اس کے والد کا نام پوچھا‘ ڈاکٹر نے جب والد کا نام بتایا تو میں حیران رہ گیا‘ وہ ڈاکٹر اس ماہر قانون کا بیٹا تھا جس کے کہنے پر میں نے اس کے نمبر بڑھائے تھے‘ میں نے اپنے بیٹے کو دفن کر دیا اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں روزانہ اس سیاستدان کے گھر جاتا ہوں‘ اس کے گھر کے سامنے چائے خانہ ہے‘ میں وہاں بیٹھ جاتا ہوں اور اندر سے چیخوں کی آوازوں کا انتظار کرتا ہوں‘ مجھے یقین ہے کسی نہ کسی دن اندر سے چیخنے کی آوازیں آئیں گی‘ لوگ وہاں اکٹھے ہوں گے‘ میت کو غسل دیں گے اور جب اس سیاستدان کی نعش باہر نکالی جائے گی تو میں آگے بڑھوں گا‘ میں اس کے جنازے کو کندھا دوں گا اور اس کے بعد میری سزا مکمل ہو جائے گی‘‘ ۔ وہ خاموش ہو گئے‘میری ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی ایک لہر سی دوڑ گئی‘ میں اکیسویں صدی کے سائنسی دور میں اس بوڑھے کی بات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا لیکن اس کے چہرے کی جھریاں جھوٹ نہیں بول رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں صرف ایک ہی چمک تھی اور یہ سچ کی چمک تھی۔ میں نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا لیکن میرے بولنے سے پہلے وہ بول پڑا’’ اور مجھے یقین ہے اس سیاستدان کی موت بھی کسی ڈاکٹر کے ہاتھوں ہو گی‘ قدرت ہمارے گناہ‘ ہمارے جرم کی سزا ہمیں اس دنیا میں دے گی‘ ایک مجرم مر گیا‘ دوسرا مر جائے گا اور میں ان دونوں کے مقابلے میں زیادہ عبرت ناک موت مروں گا لیکن ان تین ڈاکٹروں کا کیا بنے گا‘‘ وہ رکا‘ اس نے لمبا سانس لیا اور بولا’’میرا بیٹا بھی ٹھیک ٹھاک صحت مند ہے‘ اسے حکومت میں چند اچھے دوست مل گئے ہیں اور وہ لاہور کے ایک بڑے ہسپتال کا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بن گیا ہے‘ قانون دان کا بیٹا ملک کا مشہور کارڈیالوجسٹ بن چکا ہے جبکہ سیاستدان کا بیٹا چوٹی کا سرجن بن چکا ہے‘یہ صرف میں جانتا ہوں کہ یہ تینوں نالائق ہیں اور ان کی مشہوری کی وجہ میڈیا اور سیاسی روابط ہیں چنانچہ میں اکثر سوچتا ہوں ہم تینوں مجرم عبرت ناک انجام کا شکار ہو کر مر جائیں گے لیکن قدرت نے ان تین ڈاکٹرز کو کس سے انتقام لینے کیلئے بچا رکھا ہے‘ ہم لوگ کس کس سے اپنی نالائقی کا بدلہ لیں گے‘‘ بزرگ خاموش ہو گئے۔