حنیف زئی….تھر کی تپتی دھرتی پر برکھا رُت کے بادل کیا آئے جھلستی ریت کو قرار آگیا، ابر آلود موسم میں ٹھنڈی ہوائیں کیا چلیں زندگی ہی مسکرانے لگی ہے۔
دور افق سے آنے والی کالی گھٹائوں کو سب سے پہلے اونچے درخت کی شاخ پہ بیٹھے مور نے خوش آمدید کہا ، اپنے ساتھی کی پکار سن کراور قاسبو کے قدیم مندروں کے موروں نے بھی پنکھ پھیلا دیئے۔ خواتین استقبالیہ گیت گانے لگیں اور خشک سالی کے مارے بدن ڈانڈیا رقص پہ تھرکنے لگے۔ انسان ہوں یا حیوان چرند ہوں یا پرند یا پھر جھاڑیاں ہوں یا درخت ، سب ہی برکھا کی کالی گھٹائوں کے منتظر تھے ، موسم کی تبدیلی سےمرجھائے چہرے کھل اٹھے۔ بس اب انتظار ہے تو بارش کی بوندوں کا ،بارش برسے گی، تھر کا پیاسا صحرا بارش کی بوندوں سے گلے ملے گا،سبزہ پھوٹے گااورخوشحالی آئے گی۔