لاہور (ویب ڈیسک) اکتوبر 1999ء کی ایک شام تھی۔ میں جی او آر ون میں اپنی رہائش گاہ کے سرسبز لان میں شام ڈھلے چڑیوں کی چہکار سے محظوظ ہورہا تھا ۔ شام چھ بجے کے قریب میں نے اپنے معتمد خاص شعیب بن عزیز کو ٹیلی فون کیا جو گزشتہ دو دن سے سابق بیورو کریٹ طارق محمود اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ وزیراعلیٰ کے ہمراہ اسلام آباد میں براجمان تھا ۔ اس نے چونکا دینے والی خبر دی۔ جنرل پرویز مشرف کو اپنے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو ملک کا نیا چیف آف سٹاف تعینات کئے جانے کی رسم جاری تھی ۔ وہ کہنے لگا پرائم منسٹر جنرل بٹ کو نیا رینک لگا رہے ہیں! تو پھر خبر سچی نکلی تھی جو گزشتہ کئی روز سے گرداں تھی۔ میں نے شعیب بن عزیز سے کہا کہ وہ لمحہ لمحہ مجھے با خبر رکھے ۔ میں اس وقت صوبائی حکومت میں سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری اطلاعات کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھا ۔ قدرے توقف کے بعد میں نے ٹیلی ویژن آن کیا ٹی وی سکرین بالکل بلینک Blankتھی کسی قسم کی ریسپشن نہیں آ رہی تھی۔ میں نے شعیب بن عزیز سے ایک بار پھر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اب میرے فون کا جواب نہیں دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے صوبائی سیکرٹری قانون کا فون آیا کہنے لگے جی او آر ون کے تمام راستوں پر فوجی دستوں نے ناکہ لگا دیا ہے۔ پتہ نہیں چل رہا کیا ہورہا ہے۔میرے ذہن میں کڑیاں ملنی شروع ہو گئیں۔ پشیمانی بڑھتی جا رہی تھی۔ چند گھنٹوں کے بعد صورتحال واضح ہوئی۔ وزیر اعظم پاکستان ، وزیر اعلیٰ پنجاب اور اُن کے سٹاف کو فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ ملک میں افواج پاکستان نے کنٹرول سنبھال لیا۔ جنرل مشرف کے بارے میں خبر تھی کہ وہ کولمبو سے وطن کیلئے محو پرواز تھے جب انہیں مبینہ طور پر اپنے عہدے سے سبکدوش کیا جا رہا تھا۔ اُن کے طیارے کو کراچی ائیرپورٹ پر اترنے کی اجازت نہ دی گئی۔ پی آئی اے کی کمرشل پرواز فضا میں معلق تھی، ایندھن کی مقدارمبینہ طور پر خطرناک حد تک کم پڑ چکی تھی۔ خبر ملی کہ میرے ایک سینئر امین اللہ چوہدری مرحوم ڈائریکٹر سول ای ایشن اور انسپکٹر جنرل پولیس سندھ رانا مقبول احمد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ رانا مقبول کے ہمراہ تو ملتان میں میں نے اچھا وقت گزارا تھا،ابدالی روڈ پر ہم ہمسائے تھے۔ یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے شیلف سے کسی سکرپٹ کی دھول اڑا کر اسے تھام لیا اور پھر اس سکرپٹ کی ورق گرانی سے وہی پرانا منترا نکال کر دہرانا شروع کردیا جو اس لاچار قوم پر بار بار آزمایا جاچکا تھا۔ اس منصوبے کی جزویات پر عمل درآمد کرنے کیلئے محض پاکستان ٹیلی ویژن ، ریڈیو پاکستان کی آہنی سلاخیں پھلانگنے اور پرائم منسٹر ہاؤس کا گیٹ کریش کرنے کی ضرورت تھی۔ پورا پاکستان نئے انقلاب کی نوید میں دیدہ ودل فرشِ راہ کئے بیٹھا تھا۔ مجھے قدرے حیرت بھی ہوئی۔ جنرل ضیاء الدین بٹ ملک کے سب سے اعلیٰ انٹیلی جنس ادارے کا سربراہ ہونے کے باوجود جان نہ پائے کہ ایسے اقدام سے کس قسم کے نتائج نکل سکتے تھے اُن صاحب کی معاملہ فہمی پر میرا سوالیہ نشان قائم رہا۔ سویلین حکومت کی بساط تو سمیٹی گئی، ایک بار پھر سے ملک کو بچانے کا منظر نامہ پیش پیش تھا۔ اس ملک کو غیر محفوظ ہاتھوں سے بچانے کا یہ سلسلہ مولوی تمیز الدین مرحوم کے کیس سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ پنجاب سیکرٹریٹ کا آہنی دروازہ تین چار روز کی بندش کے بعد فوج کی نگرانی میں کھول دیا گیا اب ہم اپنے دفاتر میں آرام سے آجا سکتے تھے۔ میری بطور ہوم سیکرٹری اور چیف سیکرٹری مرحوم اے زیڈ کے شیر دل کی آئے دن کور ہیڈ کوارٹر میں پیشیاں پڑ رہی تھیں اور نت نئے احکامات سے آگاہ کیا جارہا تھا ۔ چیف سیکرٹری کو تو جلد ہی اُن کے عہدے سے فارغ کردیا گیالیکن مجھے ابھی کچھ مزید وقت گزارنا تھا۔ جنرل مشرف ملک میں کنٹرول سنبھال چکے تھے۔ یہ سب کچھ تو آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی تھی۔ ایک ایسا ارتکاب جسکی پاداش میں مرتکب جرم ثابت ہونے پر پھانسی کے تختے پر جھول سکتا تھالیکن اس اہم آرٹیکل نے تو مرحوم جنرل ضیاء الحق کا بھی کچھ نہ بگاڑا تھا۔ البتہ آئین میں یہ شق شامل کرنے والا ذوالفقار علی بھٹو خود پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔ ایسی بات کی نوبت ہی کیونکر آتی ۔ برسوں کی مہارت گری اور قانونی جادوگروں نے اب نئے راستے نکال لئے تھے۔اعلیٰ عدلیہ نے ایسی فیاضی دکھائی کہ قابل تعزیر جرم نظریہ ضرورت کے تحت حکمرانی کو دوام بخشنے کا جواز بن گیا۔ مطلقِ العنان حکمران کو صرف حکمرانی کا ہی نہیں بلکہ آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا جس کی اسے توقع بھی نہیں تھی۔عالمی فضا بدل چکی تھی۔ یہ ساٹھ کی دہائی تو نہ تھی جہاں تیسری دنیا کے فوجی حکمرانوں کے استقبال کیلئے اعلیٰ ترین امریکی قیادت فوجی دستوں کے ساتھ ہوائی مستقر پرکھڑی تھی۔ بدلی ہوئی فضا میں صلاح کاروں اور سہولت کاروں نے سوچا کہ اب چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کہلانے کے دن گئے۔ عالمی ردِ عمل کا یہ حال تھا کہ دولتِ مشترکہ جیسے غیر فعال ادارے نے بھی پاکستان کی رکنیت معطل کردی۔ دنیا کے ساتھ بہر طور رشتہ ضروری ٹھہرا۔ گلوبلائزیشن Globalisationکا دور دورہ تھا ۔ کارپوریٹ اصطلاحات زبان زدِ خاص وعام تھیں۔ ایک مخصوص مارکیٹنگ سٹریٹجی کے تحت ملک کے نئے فوجی حکمران کیلئے چیف ایگزیکٹو کی اصطلاح کو فروغ دیا گیا۔ صلاح کاروں نے جو کچھ ہوا اسے خاموش انقلاب کا نام دے دیا۔ ہم بھولے بیٹھے تھے خاموشی تو انقلاب کی موت تھی۔ انقلاب تو کسی خاموشی سے نہیں آتا۔ طنطنے اور ڈنکے کی چوٹ پر آتا ہے خاموشی تو صرف سازش کے نصیب میں ہوتی ہے ۔سیاسی نظام کی داغ بیل رکھنے کا وقت آیا تو بلوچستان سے ایک سادہ منش شخص میر ظفر اللہ جمالی کاانتخاب کیا گیالیکن وہ شخص بھی طبع نازک پر گِراں گزارا ۔ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود وہ شخص تھا تو سیاسی ، اس بار ایک ٹیکنو کریٹ کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ ہوا۔ تاریخ کی شدھ بدھ رکھنے والے جان گئے کہ جونظام میر ظفر اللہ جمالی اور محمد خاں جونیجو جیسے دھیمی آنچ پر سلگنے والے شریف النفس سادھوؤں اور مادھوؤں کا متحمل نہ ہوسکا اس کی پائیداری کے بارے بھلا کیا اعتبار تھا۔ فیصلہ سازوں کے ذہن میں خبط تھا کہ اس ملک کو کسی وزیر اعظم کی نہیں بلکہ چیف آپریٹنگ آفیسر کی ضرورت تھی۔ سٹی بینک سے آمدہ بینکار شوکت عزیز کی اپنے شعبے میں قابلیت، اہلیت اور ابلاغی شعبدہ بازی کے بارے میں کوئی دورائے نہ تھیں وہ یقیناً ذہین، فطین، خوش گفتار اور جاذبِ نظر شخصیت تھے لیکن ہم بھولے بیٹھے تھے سولہ کروڑ عوام پر مشتمل کثیر الجہت ملک بڑے بنیادی معاشرتی اور سیاسی مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ یہ کوئی سٹی اسٹیٹ City Stateنہ تھی جہاں کسی لی کو آن یوکی ضرورت تھی یہاں تو کسی مہاتیر محمد کا انتظار تھا۔ اسلام آباد میں بورڈ روم پرائم منسٹر کی اصطلاح عام تھی۔ موصوف کا زیادہ وقت ملٹی میڈیا پر پریذنٹیشن میں گزر جاتا سیاسی خسارہ کاری Political deficit کا یہ عالم تھا کہ وزیر اعظم پاکستان کو کوئی سروکار نہ تھا کہ اکبر بگٹی کی موت کا سانحہ کیونکر ہوا یا 12 مئی 2007 ء کو کراچی میں کس نے خون کی ہولی کھیلی۔ ہر کوئی ملک کا سافٹ امیج پروان چڑھانے میں لگا تھا۔ اس کے لئے ملک کے خواہ چیف ایگزیکٹو کو پالتو کتوں کے ساتھ ہی فوٹو سیشن کیوں نہ کرنا پڑتا۔ طاقت کے نئے مرکز اپنا جوہر دکھا رہے تھے۔ میں فی الوقت صوبائی سیکرٹری داخلہ تھا شعبہ اطلاعات کا قلمدان بھی میرے سپرد تھا ۔ایک روز ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مقبول الٰہی ملک کا ٹیلی فون آیا ۔ ملک صاحب سابقہ حکومت کے قریبی بہی خواہوں میں شمار ہوتے ۔ آڑے وقت میں انہیں شریف خاندان کی معاونت کے حوالے سے قرب بھی حاصل رہا۔ وہ مختلف ادوار میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رہ چکے تھے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انہوں نے ایک حکمنامہ سنا دیا کہنے لگے حمزہ شہباز شریف کو تحفظ امن عامہ کے تحت گرفتار کرلیں ۔ میں ان کی گفتگو سن کر ٹھٹھکا ، اپنے اعصاب کو سنبھال کر عرض کی کہ حمزہ شہباز شریف کوئی پبلک آفس ہولڈر نہیں نہ ہی بادی النظر میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ میرے پاس اس کے بارے کوئی ایسا مواد نہیں کہ میں اس کی نظر بندی کے احکام جاری کرسکوں۔ ملک صاحب کو میرا یہ جواب غیر متوقع محسوس ہوا ، وہ فوری بولے کمال ہے سیکرٹری صاحب ! جواز بناتے دیر لگتی ہے!میں نے انہیں ایک بار پھر باور کرایا کہ میرے پاس اُس شخص کے بارے میں کوئی ایسا مواد نہیں ہے کہ میں اس کی نظر بندی کا حکمنامہ جاری کرسکوں۔ ملک صاحب کو میری تاویل پسند نہ آئی اور انہوں نے سنی اَن سنی کرکے فون بند کردیا میں عجیب صورتحال سے دوچار تھا۔ میری کبھی حمزہ شہباز شریف سے ملاقات نہ تھی میں نے اسے کبھی بھی وزیر اعلیٰ آفس یا ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ پر دیکھا بھی نہ تھا۔ اس کا سیاست سے فی الوقت دور کا واسطہ بھی نہ تھا ۔ وہ محض سابق وزیر اعلیٰ کا صاحبزادہ تھا اور اس کی حیثیت محض ایک کاروباری فرد کی تھی۔ میں ابھی اپنی نہ کے مضمرات کے بارے غور کررہا تھا کہ خبر ملی کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے ڈپٹی کمشنر لاہور کو قائل کرکے حمزہ شہباز شریف کی نظر بندی کا حکمنامہ جاری کرا لیا تھا۔ڈپٹی کمشنر سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ احکامات تو جاری ہوچکے تھے اب اس نظر بندی کا جواز تلاش کیا جارہا تھا اور ضلعی انتظامیہ اس ضمن میں مواد اکٹھا کرنے کیلئے کوشاں تھی نظر بندی کا پروانہ تو یقیناً عسکری قیادت کی طرف سے ہی کیا ہوگالیکن میری دانست میں ایڈووکیٹ جنرل پر صوبہ کے سب سے اہم لاء آفیسر کے طور پر لازم تھا کہ فوجی حکام کو اپنی صائب رائے سے آگاہ کرے۔ میرا تجربہ تھا کہ عسکری ارباب اختیار نپی تلی رائے کو عمومی طور پر قبول کرلیتے ہیں۔ اگلا مرحلہ جو اس وقت درپیش تھا کہ موصوف کو کہاں نظر بند کیا جائے اس کا سہل حل تو ڈسٹرکٹ جیل تھی جہاں کئی سیاسی حضرات نظر بند تھے لیکن میں اس نظر بندی کو ’میڈیا ایونٹ‘نہیں بنانا چاہتا تھا ۔ اس ضمن میں میں نے اپنے معتمد آغا ندیم کو اعتماد میں لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ہم حمزہ شہباز کو ڈسٹرکٹ جیل میں نظر بند نہیں کریں گے۔ دوسرا مقام ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ تھی لیکن یہ مقام بھی آئے دن خبروں کی زینت بن سکتا تھا۔ فیصلہ ہوا کہ حمزہ شہباز کو جاتی امراء کی رہائش گاہ کے ایک مخصوص پورشن میں رکھا جائے ۔اس مخصوص پورشن کو سب جیل قرار دے کرجیل کا مناسب عملہ بھی ارسال کردیا گیا۔ گویا یہ قید اور نظر بندی ہاؤس اریسٹHouse arrestمیں تبدیل کردی گئی۔انہی دنوں سابق چیئرمین پاکستان ٹیلی ویژن سینیٹر پرویز رشید کو تفتیش کاری کے جاں گسل عمل سے گزرنے کے بعد ڈسٹرکٹ جیل لاہور منتقل کردیاگیا۔ جیل میں انہیں سی کلاس تفویض کی گئی تھی جہاں نہ چارپائی تھی اور نہ بستر تھا۔ ان کے کسی آشنا نے اس بات کا مجھ سے ذکر کیا ۔ ایک احساس ملامت نے آن گھیرا۔
میری سینیٹر پرویز رشید سے واجبی سلام دعا تھی اور کسی قسم کا پیشہ ورانہ تعلق نہ تھا۔ میری دانست میں وہ حکومت وقت کے سیاسی ملزم تو ہوسکتے تھے لیکن کوئی عادی مجرم نہ تھے وہ یقیناً بہتر سلوک کے مستحق تھے۔میں نے اُن صاحب کی وساطت سے سینیٹر پرویز رشید کی بیگم صاحبہ کو پیغام بھجوایا کہ وہ خاموشی سے سیکرٹری ہوم کے نام اپنے شوہر کی جیل میں بہتر کلاس کیلئے درخواست دے دیں اس پر خاطرخواہ عمل درآمد ہوگا۔ میں اس قسم کی صورتحال سے ایک بار پہلے بھی دوچار ہوچکا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا میں ڈپٹی کمشنر ملتان جب ایم آر ڈی کے قائدین اور کارکنان کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں ۔ گرفتار ہونے والے حضرات میں مرحوم سید قسور حسین گردیزی بھی پیش پیش تھے ۔ میری اُن سے بالمشافہ ملاقات نہ تھی لیکن اُن کے نام کی قدرومنزلت کا احساس مجھے ڈھاکہ یونیورسٹی میں طالب علمی کے زمانے میں اپنے بنگالی دوستوں کی زبانی ہوچکا تھا۔ ان سب حضرات کو بشمول سید قسور حسین گردیزی ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں نظر بند کردیا گیا۔ جونہی مجھے علم ہوا کہ قسور گردیزی صاحب گھٹنوں کے عارضے میں مبتلا تھے اور پیرانہ سالی میں اب وہ دم خم بھی نہ تھا میں نے صوابدیدی اختیارات کے تحت نواب پور ریسٹ ہاؤس کو سب جیل قرار دے کر انہیں فوری طور پر وہاں منتقل کردیا ۔گردیزی صاحب کو گھر سے کھانا منگوانے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ وقت کی سرکار کی منشا بھی پوری ہوگئی اور انسانی رویوں کا بھرم بھی رہ گیا۔ مجھے سینیٹر پرویز رشید کی بیگم صاحبہ کی جانب سے جیل میں بیشتر کلاس کے سلسلے میں جونہی ان کی درخواست موصول ہوئی ضابطے کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد ان کو جیل میں بہتر کلاس دے دی گئی۔ چارپائی اور بستر کی سہولت بھی میسر تھی اور اب وہ گھر سے کھانا بھی منگوا سکتے تھے۔