سرائیوو: وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ اگر دھرنے کی وجہ سے وقت ضائع نہ ہوتا تو 2018 کے بجائے 2017 میں بجلی کا بحران حل ہو جاتا۔
بوسنیا ہرزے گوینا کے دارالحکومت سرائیوو میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری سے اچھا تعلق ہے جو قائم رکھنا چاہتے ہیں، ہم نے آصف زرداری کو صدارت کے بعد اچھے انداز میں رخصت کیا، آصف علی زرداری کے وطن واپس آنے کی خوشی ہے، انہیں وطن واپس آکر اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیئے اور پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے ہاتھ میں لینی چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی پی حکومت کے اسکینڈلز پر مجھ سے پوچھا گیا کہ استعفے کیوں نہیں دیتے؟ یہاں تو دھرنوں کو شکرانے میں بدلنے اور استعفوں کو واپس لینے کا بھی چلن ہے۔ میثاق جمہوریت کے بعد جو این آر او کیا اس سے ہمیں دھچکا لگا۔
وزیراعظم نے ایک بار پھر دھرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دھرنے کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ 9 ماہ کے لئے ملتوی ہوا، دھرنے کے منفی اثرات کے باوجود 2018ء میں بجلی بحران ختم کر دیں گے لیکن اگر دھرنے کی وجہ سے وقت ضائع نہ ہوتا تو بجلی کا بحران 2017 میں ختم ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ چین والے پنجاب اسپیڈ کی بات ایسے ہی ہوا میں نہیں کرتے، ایل این جی پلانٹ وقت سے پہلے مکمل ہو رہا ہے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ بد انتظامی کا شکار تھا جسے حکومت نے بہتر کر دیا، نیلم جہلم منصوبہ بغیر تیاری کے شروع کرنا ملک کے ساتھ زیادتی تھی۔ 1999میں لوڈ شیڈنگ کا بحران نہیں تھا اور ہم بھارت کو بجلی فروخت کرنے کی بات کر رہے تھے اور پھر 2013 میں بھارت سے بجلی خریدنے کی بات ہو رہی تھی۔
ریگولیٹری اداروں کو وزارتوں کے ماتحت کرنے سے متلعق پوچھے گئے سوال پر وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ اتھارٹیز نجی شعبے کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ہیں لیکن نیپرا نجی شعبے کے بجائے حکومت کو ریگولیٹ کرنے لگا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نیپرا ایل این جی کا بہت زیادہ ٹیرف دے رہا تھا، ہم نے اس سے آدھا ٹیرف لگوایا، ہم نے نیپرا کے بجائے خود ریٹ طے کر کے 100 ارب روپے بچائے، اس سے زیادہ شفافیت ہو ہی نہیں سکتی، ایل این جی پلانٹ کے ریٹ ہم بہت نیچے لے کر آئے، ہم نیپرا کی مانتے تو 2018 میں بھی بجلی کا مسئلہ حل نہ ہو پاتا۔