لاہور (ویب ڈیسک) یہ واقعہ جی پی او چوک مری میں پیش آیا‘ سیاح فیملی برف دیکھنے مری آئی‘ جی پی او چوک میں ہوٹل ایجنٹ ندیم کھڑا تھا‘ ایجنٹ نے خاتون کو ہوٹنگ کا نشانہ بنایا‘ خاتون کے ساتھ کھڑے مرد نے ایجنٹ کو روکا‘ ایجنٹس اکٹھے ہوئے اور انھوں نے مرد کو مارنا شروع کر دیا‘ نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ خاتون نے مرد کو بچانے کی کوشش کی‘ ایجنٹس خاتون کو بھی مکے اور ٹھڈے مارنے لگے‘ خاتون اور اس کی گود میں موجود بچی زمین پر گر گئی۔ ایجنٹس گری ہوئی خاتون کو بھی ٹھڈے مارتے رہے‘خاتون کے کپڑے پھٹ گئے‘ لوگ تماشہ دیکھتے رہے لیکن وہاں موجود ایک صاحب نے ہمت کی‘ خاتون کو ساتھ کھڑا کیا‘ ویڈیو بنائی‘ یہ ویڈیو سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر وائرل ہوئی اور انتظامیہ ایکشن لینے پر مجبور ہوگئی۔ یہ واقعہ اتوار 16دسمبر کو پیش آیا اور یہ ان بیسیوں واقعات میں سے ایک ہے جو مری میں ہر ماہ پیش آتے ہیں‘ مری پنجاب کا سب سے بڑا سیاحتی مرکز ہے مگر یہ مرکز دہائیوں سے سیاحوں کے لیے غیر محفوظ چلا آ رہا ہے‘ شہر میں لاری اڈوں‘ ٹیکسی اسٹینڈز‘ ہوٹلوں‘ ریستورانوںاور سڑکوں پر درجنوں ریکٹ ہیں اور سیاح روزان ریکٹس کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہیں‘ آپ کسی جگہ گاڑی پارک کر دیں‘ کوئی شخص آئے گا اور آپ سے پانچ سو روپے مانگ لے گا‘ آپ اعتراض کریں گے‘ پانچ چھ لوگ اکٹھے ہو جائیں گے۔آپ فیملی کے سامنے گالیاں سنیں گے اور مار کھائیں گے اور آخر میں دس ہزار روپے دے کر جان چھڑائیں گے‘ آپ ایک اور تجربہ بھی کریں‘ آپ بھی مری میں داخل ہوں‘ ہوٹل ایجنٹس کا غول آپ کو گھیر لے گا‘ آپ نے اگر ان میں سے کسی ایک کی طرف دیکھ لیا تو پھر آپ پھنس گئے‘ آپ اب ہوٹل میں رہیں یا نہ رہیں لیکن آپ کو کمیشن دینا پڑ جائے گا‘یہ لوگ ہوٹلوں کے ملازم نہیں ہیں‘ یہ کمیشن پر کام کرتے ہیں‘ یہ ہوٹلوں کو باقاعدہ گاہک بیچتے ہیں‘ کرائے کی آدھی رقم ان کی جیب میں چلی جاتی ہے اور آدھی ہوٹل مالکان کی جیب میں‘ شہر کے ہوٹلوں اور ریستورانوں کا معیار بھی انتہائی پست ہے‘کھانا معیاری ملتا ہے اور نہ لیونگ‘ مری میں پانی‘ بجلی اور گیس یہ تینوں نعمتیں بھی ہر دور‘ ہر سیزن میں غائب رہتی ہیں۔ ایکسپریس وے کی وجہ سے مری میں ہر وقت رش بھی رہتا ہے‘ شہر صرف تین ہزار گاڑیوں کا دباؤ برداشت کر سکتا ہے لیکن یہاں تیس تیس ہزار گاڑیاں آ جاتی ہیں اور پورے شہر میں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں بچتی‘ مری کبھی مہذب لوگوں کا سیاحتی مقام ہوتا تھا لیکن اب آپ فیملی کے ساتھ مری نہیں جا سکتے اور اگر آپ چلے جائیں تو آپ کو مال روڈ جانے کا رسک نہیں لینا چاہیے کیونکہ وہاں اس خاتون کی طرح سیاحوں کی عزت اور مال دونوں محفوظ نہیں ہیں۔ مری کے لوگوں اور ایجنٹس کا رویہ ناقابل برداشت ہے‘ یہ خواتین پر ہوٹنگ بھی کرتے ہیں اور فیملیوں پر تشدد بھی‘ سوشل میڈیا ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے‘ آپ کو سوشل میڈیا پر سیکڑوں لوگ مار کھاتے‘ روتے اور احتجاج کرتے دکھائی دیں گے بالخصوص حبس اور برف باری کے دوران ایسے واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ مری آنے والے زیادہ تر لوگ گرم علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ برف میں ڈرائیونگ نہیں جانتے‘ یہ لوگ گرم کپڑوں اور برف کے بوٹوں کے بغیر چھوٹی گاڑیوں میں مری پہنچ جاتے ہیں‘ برف میں پھنس جاتے ہیں اوراس کے بعد مری والوں کا ہدف بن جاتے ہیں۔ لوگ آتے ہیں اور گاڑی کو دھکا لگانا شروع کر دیتے ہیں‘ یہ ٹائروں پر زنجیر بھی چڑھا دیتے ہیں‘ برف میں پھنسے لوگ ان کو فرشتہ سمجھتے ہیں لیکن جب گاڑی برف سے نکل جاتی ہے تو یہ فرشتے گاڑی والے سے دس ہزار روپے مانگ لیتے ہیں اور یوں جھگڑا شروع ہو جاتا ہے‘ میں پانچ سال سے ہر برف باری کے دوران اس قسم کے جھگڑے دیکھ رہا ہوں اور ہر جھگڑے کے آخر میں ٹریفک بھی بلاک ہو جاتی ہے اور لوگ بھی زخمی ہوتے ہیں۔
میں کیونکہ اب خود مری کا شہری اور جنیاتی طور پر سیاح ہوں‘ میں اللہ کے کرم سے آدھی سے زائد دنیا دیکھ چکا ہوں‘ اس میں سرد اور برفیلے علاقے بھی شامل ہیں چنانچہ میں اپنے اس تجربے کی بنیاد پر سیاح‘ حکومت اور مری کے لوگ تینوں کو چند مشورے دینا چاہتا ہوں‘ یہ مشورے مری اور سیاح دونوں کے لیے بہتر ہوں گے‘ میں ابتدا سیاحوں سے کروں گا‘ پاکستان کا 98 فیصد علاقہ گرم ہے چنانچہ ہم سردی کے مسائل سے واقف نہیں ہیں‘ آپ برف باری میں جب بھی مری یا گلیات کا پروگرام بنائیں۔آپ واٹر پروف لانگ شوز کے بغیر ہرگز ہرگز ایکسپریس وے کا رخ نہ کریں‘ یہ شوز لنڈے سے بھی مل جاتے ہیں‘ آپ اگر نئے جوتے افورڈ نہیں کر سکتے تو آپ لنڈے سے لانگ شوز لے لیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر آپ مری پہنچ کر جوتوں کے اوپر پلاسٹک کے شاپنگ بیگ باندھ لیں اور ان کے اوپر لنڈے کی پرانی اونی جرابیں چڑھا لیں‘ آپ کے پاؤں سردی‘ پانی اورسلپری تینوں سے بچ جائیں گے۔ہمیں پاؤں کے بعد گلے اور سر سے سردی لگتی ہے لہٰذا آپ مری پہنچنے سے پہلے گلے میںموٹا مفلر باندھ لیں‘ سر پر اونی ٹوپی لیں‘ ہاتھوں پر اونی دستانے چڑھائیں اور بالائی جسم پر واٹر پروف گرم جیکٹ پہنیں‘ آپ کپڑوں کے نیچے تھرمل بھی ضرور پہن کر آئیں
ورنہ آپ کو سردی لگ جائے گی اور آپ شدید بیمار ہو جائیں گے‘ آپ برف کا علاقہ شروع ہونے سے پہلے اپنی گاڑی کے چاروں ٹائروں کی ہوابھی کم کر دیں‘ آپ کی گاڑی سلپ نہیں ہو گی‘ آپ کے لیے بہتر ہو گا آپ برف باری کے دوران فور بائی فور جیپ استعمال کریں‘ آپ کے پاس اگر یہ سہولت نہیں تو پھر آپ ذاتی گاڑی پر سفر نہ کریں۔آپ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں اور بس اسٹاپ سے جیپ لے کر ہوٹل چلے جائیں‘یہ آپ کے لیے زیادہ سیف رہے گا‘ آپ ہوٹل کا بندوبست کر کے گھر سے نکلیں‘ برف باری میں ہوٹل کے بندوبست کے بغیر نکلنا خوفناک حماقت ہے‘آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں مری میں برف باری کے دوران بجلی بھی بند ہو جاتی ہے‘ گیس کی قلت بھی ہو جاتی ہے اور باتھ روموں میں پانی بھی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو یہ بہت ٹھنڈا ہوتا ہے‘ مری کے زیادہ تر لوگ اچھے ہیں‘ یہ مہمان نواز بھی ہیں لیکن ہوٹل ایجنٹس اور سڑکوں پر پھرنے والے لوگ غیر مہذب اور بداخلاق ہیں۔آپ ان کے ساتھ ہرگز ہرگز لین دین نہ کریں‘آپ ان سے جتنا بچ سکتے ہیں بچ جائیں‘ دوسرا مری میں حکومت مسنگ ہے‘ یہ پاکستان کا سب سے بڑا ہل اسٹیشن ہے‘ سیاحوں کی تعداد اکثر اوقات لاکھ افراد تک پہنچ جاتی ہے لیکن پولیس اور سول ایڈمنسٹریشن نہ ہونے کے برابر ہے
‘ پوری دنیا میں سیاحتی مقامات کے لیے ٹورازم پولیس ہوتی ہے‘ اس پولیس کے پاس خصوصی اختیارات ہوتے ہیں مگر پاکستان کے کسی سیاحتی مقام پر ٹورازم پولیس موجود نہیں‘ حکومت کو چاہیے یہ مری اور گلیات میں ٹورازم پولیس کا تجربہ کرے‘ یہ پولیس صرف سیاحوں کے ایشوز دیکھے‘ اس پولیس کے پاس پولیس اورمجسٹریٹ دونوں کے اختیارات ہونے چاہئیں‘ یہ شکایت سنے‘ تفتیش کرے اور فوری فیصلہ کر دے۔ٹورازم پولیس کے پاس رینجرز اور فوج کو طلب کرنے کا اختیار بھی ہونا چاہیے تاکہ یہ سیاحوں کی حفاظت کے لیے فوج کو بھی بلا سکے‘ مری کے تمام ہوٹل اور ریستوران فوری طور پر رجسٹر ہونے چاہئیں‘ہوٹلوں کے لیے آن لائن بکنگ سسٹم بھی بنایا جائے‘ سیاح گھر سے بکنگ کر کے آئیں اور ہوٹل کی گاڑی انھیں بس اسٹاپ سے لے‘ مری کا مین سرکل ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا جائے اور یہ سرکل ٹورازم پولیس کے کنٹرول میں دے دیا جائے‘ ہوٹل ایجنٹس کو فوری طور پر بین کر دیا جائے‘ جو ایجنٹ نظر آئے یا وہ کسی گاڑی کی کھڑکی کے بجائے پولیس اسے پکڑ کر چھ ماہ کے لیے جیل بھجوا دے‘ ٹریفک پولیس برف میں پھنسی گاڑیاں نکالنے کے لیے مقامی لوگوں کے یونٹ بنا دے‘ یہ باوردی لوگ ہوں‘ ان کی فیس طے ہو اور یہ صرف اتنی ہی فیس چارج کر سکیں‘اس یونٹ سے مقامی لوگوں کو روزگار بھی مل جائے گا‘ سیاحوں کی مدد بھی ہو جائے گی اور لڑائی جھگڑے بھی نہیں ہوں گے۔ہم اب آتے ہیں مری کے لوگوں کی طرف‘ سیاح مری کی معیشت کی ہڈی ہیں‘ مری کے تمام لوگوں کا رزق سیاحوں کے ساتھ وابستہ ہے‘ لوگ آئیں گے تو مری کے لوگوں کو روزگار ملے گا‘مری کے لوگوں کو یہ حقیقت ماننی ہو گی‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا پاکستان کے اردگرد بے شمار سیاحتی مراکز کھل چکے ہیں‘ ازبکستان‘ ترکی‘ آذربائیجان اور دبئی سستے بھی ہیں اور محفوظ بھی‘ ایک فیملی جتنے پیسے مری یا نتھیا گلی میں خرچ کرتی ہے یہ اتنی رقم میں ان چار ملکوں سے کسی ایک ملک میں تین چار دن گزار سکتی ہے‘ سوات اور کاغان ویلیز بھی اب سردیوں میں کھل جاتی ہیں چنانچہ آپ اگر سیاحوں کو تنگ کریں گے اور یہ ویڈیوز اسی طرح وائرل ہوتی رہیں گی تو پھر لوگ مری نہیں آئیں گے اور اس کا نقصان صرف اور صرف مری کو ہوگا چنانچہ آپ بدتمیزی کرنے والے لوگوں کو خود روکیں۔آپ انھیں خود پکڑ کر پولیس کے حوالے کریں ورنہ یہ واقعات مری کی بدنامی کا باعث بن جائیں گے اور یوں ملکہ کوہسار بیوہ ہو جائے گی اور آپ معاشی طور پر یتیم۔مجھے چند سال قبل سردیوں میں پولینڈ کے مری زاکوپانا جانے کا اتفاق ہوا‘ یقین کیجیے لوگوں کے رویوں‘ سہولتوں اور ٹورازم پولیس نے میرا دل موہ لیا‘ میری گاڑی برف میں پھنس گئی تھی‘ پولیس آئی‘ اس نے گاڑی نکالی اور مجھے کافی پیش کی‘ میں جس گھر میں پے انگ گیسٹ تھا اس کے باہر درجہ حرارت منفی 10لیکن اندر 30 ڈگری سینٹی گریڈ تھا‘ یہ اگر پولینڈ کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے‘ آپ سوچیں اور سر پیٹیں۔