انقرہ: ترکی میں فوجی بغاوت اور قتل کے الزامات میں ڈیڑھ سو سابق فوجیوں کا ٹرائل شروع کردیا گیا۔
گزشتہ سال 15 جولائی کو ترک صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران فوجی اہلکاروں اور سیاسی کارکنوں میں جھڑپوں ہوئیں تھیں، جن میں 34 کارکن اور 7 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے افراد میں صدر اردوان کی انتخابی مہم کے مینیجر ایرول اولک اور ان کا 16 سالہ بیٹا عبداللہ طیب بھی شامل تھے۔ عدالت میں 30 افسروں سمیت 143 سابق فوجی پیش ہوئے جن پر بغاوت اور قتل کی فرد جرم عائد کردی گئی۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی ترکی کی ایک عدالت نے اردوان کو قتل کے کرنے کی کوشش کرنے پر 40 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
واضح رہے کہ ترک صدر اردوان کے خلاف ناکام بغاوت میں 249 سیاسی کارکن ہلاک ہوئے تھے۔ اردوان امریکا میں مقیم مذہبی رہنما فتح اللہ گولن اور ان کے پیروکاروں پر بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام لگاتے ہیں جب کہ گولن تحریک اس الزام کی تردید کرتی ہے۔ بغاوت ناکام ہونے کے بعد استنبول کے پل پر قبضہ کرنے والے فوجیوں نے بھی پولیس کے سامنے سرنڈر کردیا تھا اور ہاتھ اٹھاکر اور کپڑے اتار کر گرفتاری دے دی تھی۔ گزشتہ سال جولائی سے لے کر اب تک ترکی میں گولن تحریک سے تعلق کے الزام میں 50 ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیاجاچکا ہے جب کہ ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو برطرف کیا جاچکا ہے۔