تیس سال پہلے میرا ایک دوست محکمہ انہار میں سپرنٹنڈنٹ انجینیر تھا ،اسکا ایک بیٹا بھی تھا ،بد قسمتی سے وہ لڑکا پاگل تھا، جسکو اکثر اس کے گھر والے باندھ کے رکھتے تھے ،باندھتے اس لیۓ کہ وہ پھر گھر والوں کو مارتا تھا اور گھر کی اشیا کی توڑ پھوڑ کرتا تھا. ایک روز نوکر کی بے توجہی کی وجہ سے پاگل لڑکا ڈرائینگ روم میں گھس گیا ،اور ہزاروں روپے کا نقصان کر ڈالا ،دوست اس لڑکے کو اٹھا کے میرے پاس لے آیا ،اور روتے ہوۓ مجھسے کہنے لگا. ڈاکٹر صاحب اسکا کچھ کریں ،اسنے ہماری ناک میں دم کیا ہوا ہے، اپ اسکا کوئی علاج کریں ورنہ میں اسکو جان سے مار دونگا. میں نے اسے سمجھاتے ہوۓ کہا کہ الله سے ڈرو ایسی بات مت کرو ورنہ قیامت کے دن تم سزا کے مستحق ہونگے، تمہارا یہ عمل تمھارے لیۓ سزا کا سبب بنےگا. میری بات سن کر میرا وہ دوست کہنے لگا، مرنے کے بعد (نعوز باللہ) کس نے جینا ہےاور کون پوچھے گا ،میں اسکی بات سن کر چپ رہا کے کہیں یہ مزید کفریہ کلمات نہ بولے. کچھ دن کے بعد میرا یہ دوست ڈیرہ غازی خان کینال کے معائنہ کے لیۓ گیا اس نے وہاں ایک جگہ مزدور جمع دیکھےاور ان کا شور سن کروہ مزدوروں کے پاس گیا اور وجہ پوچھی. انہوں نے بتایا کے نہرکی تہ میں ایک انسانی جسم کا حصّہ نظرآ رہا ہے، وہ بہت حیران ہوا اور خود اس جگہ پر گیا اور اوپر کی مٹی ہٹانے کو کہا مٹی ہٹانے پر ایک انسانی لاش برآمد ہوئی، اس لاش میں دو باتیں حیران کن تھیں. ایک تو اس کے کپڑے خون آلود تھے، اس سے اندازہ ہوا کہ یہ کسی شہید کی لاش ہے، اور دوسری بات اس کے منہ کے اوپر ایک پھل نما چیز رکھی ہوئی تھی جس میں سی کچھ وقفے کے بعد لاش کے منہ میں کچھ قطرے ٹپک رہے تھے. نہر کی گہرائی ٢٠ فٹ تھی اور نعش اس سے بھی زیادہ گہرائی میں تھی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس آدمی کو مرے ہوے صدیاں بیت گئی تھیں. اسی شام انجینئرصاحب نے میرے گھر آ کرپورا واقعہ سنایا، انہوں نے کہا قرآن پاک میں جو کہا گیا ہے کے شہیدوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وو تو زندہ ہوتے ہیں اور انکو رزق دیا جاتا ہے اسکی زندہ مثال میں دیکھ کے آیا ہوں. مجھے یقین ہو گیا ہے کے مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے جس میں یوم حساب بھی ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس شہید کو بھی زمین کھا جاتی