لاہور (ویب ڈیسک) کچھ لوگ اتنے غیرت مند ہوتے ہیں کہ کوئی ان کی بہن بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ لے تو یہ اس کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس قتل کی سزا سے بچنے کے لئے یہ اسی بہن بیٹی کو مقتول کے باپ تکنامور خاتون لکھاری شازیہ چھینہ اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ کے نام پر ونی کر دیتے ہیں اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے جیل سے باہر آجاتے ہیں۔ تب ان کی یہ غیرت یقیناً بے غیرتی کی آخری حدوں سے بھی سو پچاس سو کلو میٹر آگے کی حد پھلانگ رہی ہوتی ہے۔ یہ لوگ اتنے غیرت مند ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی بہن بیٹی اپنی مرضی سے کسی کو اپنا جیون ساتھ چن لے (وہ حق جو خدا اور رسولؐ اس کو دیتے ہیں) یا ایسی خواہش کے اظہار کی جرت کر بیٹھے تو اس کو گاڑی میں باندھ کر اس کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور اس کی فلک شگاف چیخوں سے اپنی حیوانی غیرت کو تسکین دی جاتی ہے اور جب ایسا ہی کوئی غیرت مند بھائی کسی دوسرے کی بہن سے تعلق کی سزا سے بچنے کے لئے اپنی کم سن کنواری بہن کو بھری پہنچائیت میں کچھ غیرت مند درندوں کے حوالے کر دیتا ہے جو مل کو اس کی معصومیت کوداغدار کر کے اپنی میلی غیرت کو اجلا کرتے ہیں تو اس بھائی کی غیرت چوں تک نہیں کرتی۔ یہ ایسے غیرت مند لوگ ہیں کہ شاہ صدر دین کی فوزیہ (قندیل بلوچ) بھوک و افلاس اور گھٹن زدہ ماحول سے بغاوت کر تے ہوئے ماڈلنگ کرنے پر مجبور کر دی جاتی ہے۔ وہ خود کو بھی پالتی ہے اور بوڑھے ماں باپ کو بھی اور ایک دس سالہ بھائی کو پال پوس کر بڑا کرتی ہے اور اپنی اسی ماڈلنگ کی کمائی سے موبائل شاپ بنا کر دیتی ہے۔اس کا وہ غیرت مند بھائی ماڈلنگ کی یہ کمائی قبول کرتے ایک پل کے لئے بھی نہیں ہچکچاتا نہ اس کی غیرت دم مارتی ہے۔ بلکہ اپنی ذمہ داریوں (ماں باپ) کا بوجھ بھی قندیل پر ڈالتے ہوئے اس کے بھائیوں کی نہ تو غیرت جاگتی ہے نہ احساس ذمہ داری۔ مگر وہی فوزیہ (قندیل)جب ایک مذہبی مگر مچھ کی کچھ ٹھرک پن پر مبنی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتی ہے تو ہر طرف سے غیرت! غیرت! حیا! حیا! کی ہا ہا کار مچ جاتی ہے۔ اس کے بھائیوں کی سوئی غیرت جاگ اٹھتی ہے اوران کو فوزیہ کی ادھ ننگی تصاویر اور ویڈیوز پر ان کے پیٹ میں غیرت کے مروڑ اٹھنے لگتے ہیں (وہ غیرت جس کی موت شاہ صدر دین میں واقع بوسیدہ گھر کی گرتی دیواروں کے ملبے تلے دب کر اسی دن ہو گئی تھی جب قندیل بلوچ نے پیٹ کی بھوک سے تنگ آئے والدین کو ملتان بلالیا تھا) اور وہ غیرت کے نام پراس کو قتل کر دیتے ہیں۔اسی پر بس نہیں ہوتی اور کئی گھنٹوں تک اس کی بے ترتیب لباس والی اور مسخ شدہ ہونٹوں والی لاش بے گو رو کفن ملتان میں واقع کرائے کے مکان میں بان کی چارپائی پر پڑی رہتی ہے تو کبھی سرکاری ہسپتال کے پوسٹ مارٹم وارڈ کی گیلری میں لوہے کے ٹوٹے پھوٹے سٹریچر پر تب اس کا سیاہ پڑتا چہرا اور سوجے ہونٹ خاندان کی غیرت کو چار چاند لگا رہا ہوگا اور اسی حالت میں لی گئی اس نوحہ کناں لاش کی تصاویر یقیناًپاکستان سمیت پوری دینا میں اپنے بھائیوں اور خاندان کی غیرت پر بین کرتی رہی ہوگی۔میں سوچتی ہوں کہ تب اس کے بھائیوں کوہلکا سا بھی احساس غیرت ہوا ہو گا؟ بلکہ اسی قندیل یا فوزیہ سے پیسے لیتے ہوئے، اس کو ماں باپ کی ذمہ داری دیتے ہوئے تو غیرت نہیں جاگی ہوگی ان غیرت مند بھائیوں کی؟ اس کی زندگی میں اور موت کے بعد بہت سے غیرت مند اس بات کو ہر گلی کوچے میں اچھالتے تھے کی فوزیہ عظیم بے غیرت ہے جس کو خاندان کی غیرت کا کوئی احساس نہیں ہے اور خود کو ادھ ننگا کر کے سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور تصاویر اپلوڈ کرتی ہے۔ پر میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاؤں؟ آدھے سے زیادہ پاکستان کو اس کی اسی نیم عریانی سے اس قدر دلچسپی تھی کہ وہ سوشل میڈیا اور وکی پیڈیا پر سب سے زیادہ سرچ اور کی جانے والی دس شخصیات میں سے ایک بن گئی تھی۔ ہر طرف اس کی بے حیائی کے چرچے تھے تو ایسا کیوں تھا؟ کیوں کہ اس نے اپنی مرضی سے خود کو ننگا کیا تھا تو سوال اب آدم کی غیرت کابن گیا تھا۔ اس لئے بہت اچھالا اس کو زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔ حوا کی بیٹی تھی ناں۔ تو اس کو یہ اختیار کس نے دیا تھاکہ خود کو خود ننگا کرے؟ لہٰذا سزا تو ملنی تھی۔ مگر یہی کام جب ابن آدم کرتا ہے بنت حوا کے ساتھ تو کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا، بلکہ اس کو بھی غیرت کے نام پر سر انجام دیا جانے والا کارنامہ مانا جاتا ہے۔ جی ہاں۔ہم ایسے غیرت مند لوگ ہیں کہ ایک لڑکی خود نیم عریاں ہو تو ہاہا کار مچ جاتی ہے۔ (یہاں یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ میں عریانی کو سپورٹ کر رہی ہوں بلکہ میرا مقصد منافقت اور دہرے معیار پر مبنی ان رویوں پر احتجاج کرنا ہے جن کو ہم غیرت کا نام دیتے ہیں )جب کہ یہی کام جب ابن آدم نام نہاد غیرت کے نام پہ کرتا ہے تو ہرشخص اس کو دبانے اور چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور اس پر بات کرنے والے کو بھی بے حیا اور بے غیرت کا نام دیا جاتا ہے۔ کیوں۔ ؟ اور اس کی تازہ ترین مثال مٹ گرہ کی سولہ سالہ شریفاں ہے جس کو کچھ درندوں نے سر بازار برہنہ کر کے پورے گاؤں میں پھرایا اور اس کی ویڈیوز بنائیں، اس کو گھسیٹا، اس کے جسم کے مختلف حصوں کو چھیڑتے رہے اور اس پر آوازے کستے رہے۔ ! نہ زمین پھٹی نہ آسمان پھٹا۔ ! وہ ننگی گلیوں میں چیختی رہی۔ لوگوں کے گھروں کے دروازے بجا بجا کر ایک کپڑے کی بھیک مانگتی رہی جس سے وہ اپنی ستر پوشی کر سکے۔ مگر شاید پورے گاؤں میں ایک بھی غیرت مند نہیں تھا۔ہم بات کرتے ہیں برما کی، کشمیر کی، فلسطین کی۔ جہاں غیر مسلموں کے ہاتھوں مسلمان بہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔ مگر شریفاں کے معاملے میں توملک بھی مسلمان۔ شریفاں بھی مسلمان اور اس پر ظلم ڈھانے والے درندے بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ کہاں ہے حکومت پاکستان۔ کہاں ہے قانون اور کہاں ہیں حقوق نسواں والے اور کہاں ہیں وہ سارے غیرت مند جن کو فوزیہ عظیم (قندیل بلوچ)کی عریانی پر پیٹ درد رہتا تھا؟اب جب اسی بیلٹ (سرائیکی )کی شریفاں پر انسانیت سوز ظلم کی ایک نئی داستاں رقم کی گئی تو وہ سب خاموش کیوں ہیں؟ ان کی لبوں پر قفل کیو ں لگ گئے؟ اور ان کی زبانیں تالوسے کیوں چپک گئی ہیں؟ کیا اب کسی کی غیرت نہیں جاگی؟ اب کوئی کیوں نہیں بولتا؟ بلکہ پولیس سے لے کر سیاسی وڈیروں تک ہر کوئی اس بات کو دبانے اور رفع دفع کروانے میں کیوں لگا ہے؟ فوزیہ عظیم کی بے لباسی پراعتراض اٹھانے والوں میں سے کوئی مجھے بتائے گا کی اس سولہ سالہ یتیم شریفاں کا کیا قصور تھا؟ وہ کس بے غیرتی کی پاداش میں ذلیل و رسوا کی گئی؟ کوئی نہیں بتائے گا نہ کسی کو اس سے دلچسپی ہے۔ کیونکہ نہ تو وہ کوئی سیاسی گدھ ہے نہ کوئی سلیبرٹی کی اس سے کسی کو ریٹنگ ملے۔ بلکہ اس کی اوقات تو کرینہ کپور کے ہاں بیٹے کی پیدائش والی خبر سے بھی کم تر ہے۔ چلئے میں بتائے دیتی ہوں کہ عمران خان کے نئے پاکستان کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک چھوٹے سے گاؤ ں مٹ گرہ کی یتیم شریفاں کس کی غیرت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اس معصوم کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک ایسے بھائی کی بہن ہے جس پر مخالف پارٹی کو شک تھا کہ اس نے ان کی بیٹی کو موبائل دیا اور اس سے بات کرتا تھا۔ جی ہاں موبائل پر بات چیت کا شک۔ جس کی وجہ سے دوسرے خاندان کی غیرت پر حرف آیا۔ یہ کہانی ہے دو خاندانوں سیہار، قونب اور ان کے مخالف اور نسبتا غریب خاندان سیال کی۔ شریفاں کا تعلق سیال خاندان سے ہےاور اس کے علاوہ اس کی پانچ چھوٹی بہنیں اور ایک سترہ سالہ بھائی ساجد ہے۔ شریفاں کا باپ بہت سال پہلے فوت ہو گیا تھا اور اس کی بیوہ ماں نے یہ سات بچے کیسے پالے اور ایام بیوگی کیسے گزارے وہ وہی جانتی ہے یا اس کا خدا۔ غربت و تنگدستی کا یہ عالم ہے کہ لگتا ہے سفید پوشی ابھی اپنا ضبط توڑ کر بین ڈالنے لگے گی۔ آج سے ڈیڑھ سال قبل سیہار خاندان کی لڑکی کے پاس اس کے گھر والوں کو موبائل ملا جس پر شک تھا کہ یہ ساجد یعنی شریفاں کے بھائی نے دیا ہے۔ لڑکی کو بہت مارا پیٹا گیا، اس کے بازو توڑ دیے گئے۔ مطالبہ یہ تھا کہ ساجد کے خلاف تھانے میں بھگتو تب جا کر خاندان کی وہ غیرت جس کوموبائل پر بات چیت سے ٹھیس پہنچی تھی اس کو سہارا ملتا۔ ساجد پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ پھر خاندان کی کسی بچی کو فائر مار کر خود ہی زخمی کیا گیا اور ساجد پر ایف آئی آر کٹوائی گئی۔ اس طرح بات جو چار دیواری میں تھی گھر کی دیواریں پھلانگ کر گلی محلے کو لونڈوں تک پہنچی، تالاب پر پانی بھرنے والی عور توں کے ہاتھ لگی اور پھر تھانے کچہری تک جا پہنچی۔ چٹخارے بازی سے بات طعنے بازی پر آئی اور پھر سوال خاندان کی غیرت کا بن گیا۔ لڑائی جھگڑے شروع ہوئے تو غیرت کی اس بات نے جرگے میں ڈیرے ڈال لئے۔ جس میں تحصیل درابن کے ناظم ہمایوں خان، یونین کونسل بھکھی کے ناظم پیر چن شاہ قریشی، نائب ناظم غریب نواز شاہ، خالد خان آف ڈاکخانہ چودھواں اور دیگر معززین علاقہ جیسے کہ عطاللہ گڈوار اور سلیمان لنگراہ آف جھوک امین سمیت لڑکی کا باپ شاہ جہان اور دونوں خاندانوں کے مرد حضرات موجود تھے۔بات دس لاکھ سے شروع ہو کر ساڑھے تین لاکھ پر ختم ہوئی۔ معاہدے پر سب کے دستخط ہوئے۔ اور رقم ادا ہوگئی۔ یعنی کہ اگر غیرت کی قیمت ساڑھے تین لاکھ لگ جائے تو پھر اس لٹی پٹی غیرت کی مرمت ہوجاتی ہے۔ گویا غیرت کے ساتھ کسی قسم کی بے غیرتی نہ ہوئی ہو۔ مطلب پیسے ملنے پر غیرت گنگا اشنان کر کے اپنا میلا تن اجلا کر آتی ہے۔ مگر پیسے لینے کے بعد بھی بات ختم نہیں ہوئی اور بات جو پانی کے تالاب اور گاؤں کے لونڈوں کے پاس تھی وہ نفرت کو ہوا دیتی رہی۔ سیہار خاندان کے سارے غیرت مند سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور فیصلہ ہوا کہ خاندان کی غیرت تب قائم رہ سکتی ہے اگر ساجد کی بہن شریفاں کو برہنہ کر کے پورے گاؤں میں گھمایا جائے۔ اس کے لئے ستائس اکتوبر کا انتخاب کیا گیا جب سیال خاندان کے زیادہ تر مرد گاؤں سے باہر تھے۔ نو درندے دو دو کی ٹولیوں کی صورت میں مختلف راستوں پر اسلحہ لے کر کھڑے ہوگئے تا کہ کسی کو اس طرف آنے سے روکا جا سکے۔ شریفاں جو اپنی کزن سکینہ اور ایک لڑکی کے ساتھ پانی بھر کے آ رہی تھی اس کو گن پوئنٹ پر روک کر اس کے کپڑے پھاڑے گئے اسے برہنہ کیا گیا اور سکینہ کی چادر جو اس نے شریفاں کو دی کہ جسم ڈھانپ دے سکے وہ چھین کر پھاڑ دی۔ وہ چیخ رہی تھی، رب کے واسطے ڈال رہی تھی، پاؤں پکڑ رہی تھی کے اس کو پر رحم کریں۔ وہ نہ تو کافر ہے اور نہ کسی دشمن ملک کی ماں بہن۔ بلکہ وہ تو مسلمان ملک کی مسلمان ماں بہن۔بلکہ ایسے مذہب کی ماننے والی ہے جو غیر مسلموں کی عورتوں کی بھی عزت و تکریم کا درس دیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی پر جہنم کی وعید سناتا ہے۔ مگر نام نہاد غیرت کے سامنے مذہب، تہذیب، انسانیت اور احساس۔ سب ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ شریفاں ان کے چنگل سے کسی طرح نکل کرحافظ قاری کلیم اللہ نامی شخص کے گھر داخل ہوئی اور ان سے چادر کی بھیک مانگی۔ تو ان نو میں سے دو لوگ ناصر اور رمضان اس کے پیچھے گھر میں داخل ہوئے، ایک نے قاری کلیم اللہ کو گن پوائنٹ پر روکے رکھا جبکہ دوسرا اس کے گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا۔ جہاں رحمت اللہ بن سید اللہ نے اس کی ویڈیو بنانی شروع کر دی اور باقی اس کو گھسیٹتے ہوئے سید اللہ کے گھر لے گئے۔ جہاں جس قدر ہو سکا اس کو ذلیل کیا گیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ گاؤں نہیں جنگل ہوجہاں انسان نہیں درندوں کا راج ہو اور ایک ہرنی چند بھیڑیوں میں گھری ہو جو اس کو باری باری ایک دوسرے کی طرف دھکا دے کر اس کی بے چارگی و بے بسی کا مزا لے رہے ہوں۔ یہ حیوانی کھیل ایک گھنٹے تک جاری رہا اور اس دوران پورے گاؤں میں ایک بھی غیرت مند نہیں سامنے آیا۔یہ حوا کی مظلوم بیٹی کسی نہ کسی طرح بھاگ کر اپنے ماموں کے گھر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی جہاں اس کے بے لباس جسم کوتو ڈھانپ دیا گیا مگر اس زخمی روح اور مجروح عزت نفس و جذبات کو شاید کبھی نہ ڈھانپا جا سکے۔اس کے بعد ان و غیرت مندوں میں سے سجاول نامی شریفاں کے پھٹے کپڑے اپنے خاندان کی ایک عورت کو پہنا کر تھانے پہنچ گیا اور شریفاں سے پہلے ساجد کے خلاف رپورٹ درج کروا دی۔ ایسے میں غیرت نامی چڑیل یقیناً دور کھڑی قہقے لگا رہی ہو گئی۔ کیا غیرت ہے۔ ! جس میں حوا کی بیٹیاں ہی ذلیل و رسوا ہو رہی ہیں۔ ایک کو موبائل رکھنے کی پاداش میں تھانے کچہری سے لے کر جرگے تک رسوا کیا گیا اور پیسے وصول کیے گئے دوسری کو بے لباس کر کے گاؤں پھرایا گیا اور تیسری کے کپڑے پھاڑ کر اس نیم برہنہ حالت میں تھانے پیش کر دیا گیا۔ تالیاں!ایسے میں جب ساجد لوگ تھانے پہنچتے ہیں تو پولیس والے جو سیاسی اثر و رسوخ اور بابا جی کے نذرانوں کے بوجھ تلے دب چکے تھے انھوں کافی لیل و لعت کے بات یک لولی لنگڑی ایف آئی آر کاٹی وہ بھی کراس۔ مگر جب بات آئی جی تک پہنچی تو ایس ایچ او کے کان کھڑے ہوئے اور نئی ایف آئی آر کاٹی گئی وہ بھی کانی۔ خدا خدا کر کے آٹھ بندے گرفتار ہوئے مگر نواں اور مرکزی ملزم سجاول تاوقت تحریر ہذا مفرور ہے۔مجھے اس مظلوم خاندان تک پہنچتے پہنچتے گیارہ دن لگ گئے۔ شریفاں کے بھائی ساجد (جس کو بات کرنا بھی نہیں آرہا تھا اس کا چہرہ سپاٹ تھا اور زبان گنگ) پھر اس کے خالہ زاد حافظ ہدایت اللہ سے بات ہوئی۔ و ہ کہہ رہا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا بتاؤں کیا نہ بتاؤں۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور زبان لڑکھڑا رہی تھی۔وہ کہہ رہا تھا کہ باجی ہم سادہ اور غریب لوگ ہیں۔ یہاں ہر روز لوگ آتے ہیں کیمرے لے کر اور انٹرویو کر کے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں تو ان کی بولی بھی سمجھ نہیں آتی ٹھیک سے۔ ان کے سوال ہمارا سینہ چھلنی کر دیتے ہیں۔ گیارہ دن ہو گئے ہیں۔ ہم تھک چکے بتا بتا کے مگر تا حال کچھ ایسا نہیں ہوا کہ ہمارے رستے زخموں پر مرہم آئے۔ گیارہ دن سے ہم لوگ لگے ہیں مہمانوں اور آنے جانے والوں کی خاطر مدارت میں۔ چائے، پانی، کھانا۔ سو خرچے۔ اور ساجد کی فیملی بہت غریب ہے اوپر سے تھانے کچہری اور عدالتوں کے خرچے الگ۔ ہمیں پتا ہے عدالتوں کی ایک لمبی جنگ شروع ہو چکی ہے اور ساجد لوگوں کے پاس تو بس کا خرچہ مشکل سے نکلتا ہے۔ سادہ لوحی کا یہ عالم ہے یہ لوگ بات تک نہیں کر پا رہے اس لئے ان کی مدد کے لئے میں ادھر رکا ہوا ہوں۔ یہاں اب تک نہ کوئی حکومتی رکن آیا ہے، نہ حقوق نسواں کی کوئی ٹیم اور نہ ہی نئے پاکستان کا کوئی دعویدار۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ان کے مجروح جذبات اور عزت پر پھاہے رکھوں یا پھر ان کے لئے مالی مدد اور انصاف مانگوں۔ کیونکہ یہ تو پاکستان ہے جہاں انصاف کے لئے بھی خرچہ چاہیے۔ عمران خان کے نئے پاکستان (کے پی کے) میں بھی انصاف لینے کے لئے پیسہ چاہیے۔جب میں نے ہدایت اللہ سے پوچھا کہ اب شریفاں کیسی ہے تو اس نے کہا کہ اس کی ذہنی حالت عجیب ہے۔ گھنٹوں چپ رہتی ہے پھر چیخیں مارتی ہوئی گھر سے باہر بھاگنے کی کوشش کرتی ہے۔ کبھی کونوں میں چھپتی ہے اور کبھی بین ڈالنا شروع کر دیتی ہے۔ ابھی سوئی ہے آپ کہتی ہیں تو جگا دیتا ہوں۔ مگر ہر کوئی اس سے سوال کرتا ہے کہ بتاؤ تمہارے ساتھ یہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا۔ اور وہ ایک تماشا بن کے رہ گئی ہے۔ میں نے اس جگانے سے منع کر دیا اور اس مظلوم بنت حوا کے نوحہ کناں چہرے پر نظر ڈال کر لوٹ آئی۔ شاید مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ میں اس تباہ حال لڑکی سے نظر ملا کر پوچھ سکوں کہ بتاؤ آدم کی غیرت مند بیٹوں نے اپنی غیرت میں آکر تمہاری عفت وعظمت کوکیسے سر بازار ننگا کیا؟ مگر اس ملک بلکہ پوری دنیا کے غیرت مند وں اور حقوق نسواں کے فلگ شگاف نعرے لگا لگا کر لاکھوں ڈالر بٹورنے والوں اور والیوں سے اتنا ضرور کہوں گی کہ ۔۔ مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی ۔۔ یہ شہدا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی ۔۔ پیغمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی ۔۔ ثنا خوان تقدیس مشرق بلاؤ ۔۔ یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ ۔۔ ثنا خوان تقدیس مشرق بلاؤ ۔۔ ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟