لاہور(ویب ڈیسک) صوبائی دارلحکومت میں ایک پرائیویٹ ہسپتال میں کام کرنے والے فارماسسٹ ہارون سلیم نے بتایا کہ جیسن کے پاس ہونے کی خوشی ہم نے شوکت خانم ہسپتال میں منائی ۔اس دن صبح ہی سے ہم سب گھر والے تھوڑے نروس تھے۔ میرا بیٹا جیسن ہارون تو کچھ زیادہ ہی پریشان تھا کیونکہ آج اس کا 9thکلاس کا رزلٹ آنا تھا ۔
رزلٹ کے حوالے سے میں جیسن کی پریشانی کو بخوبی سمجھتا تھا ۔جب رزلٹ کا پتا چلا تو سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے جیسن 80%نمبرز لے کر پاس ہو گیا تھا۔ جیسن کی کامیابی کی خوشی ایک خاص وجہ سے زیادہ تھی کہ یہ میرا وہ بچہ ہے جو موت شکست دے کر واپس آیا ہے ۔ مجھے آج بھی یاد ہے جس دن جیسن نے مجھے شکایت کی کہ وہ اپنی بائیں ٹانگ میں درد محسوس کر رہا ہے تو میں اسی دن اسے ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کر دولیکن وہ چلنے پھرنے سے بھی مجبور ہو گیا۔ پھر میں بلا تاخیر اپنے بیٹے کو لے کر شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹرگیا۔ ٹیسٹ کی رپورٹس آنے پر جب اس بات کی تصدیق ہوئی کہ جیسن کو ہڈیوں کے کیسنر کی ایک قسم ایونگ سرکوما(Eving Sarcoma)ہے تو مجھے لگا کہ بس اب سب کچھ ختم ہے ۔اس موقع پر شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹراور عملے کا کردار بہت اہم تھا ۔ ڈاکٹر احسن شمیم کی باتوں نے مجھے بہت سہارا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کینسر اب قابل علاج مرض ہے اور میرے بیٹے کا کامیاب علاج بھی عین ممکن ہے ۔ یہاں ایک اور،
بہت بڑا مسئلہ میرے سامنے تھا ۔ میری مالی حالت اتنی مظبوط نہیں تھی کہ میں اپنے طور علاج کے اخراجات برداشت کر سکتا ۔ لیکن میرا یہ مسئلہ بھی ایسے حل ہو گیا کے مجھے اب تک یقین نہیں آتا میری درخواست اور ایک مختصر سے عمل کے بعد ہسپتال نے بلا معاوضہ علاج کی سہولت دے دی ۔ جیسن کے علاج کیمو تھراپی سیشنز سے کیا گیا ۔ اس کا علاج تقریباً دو سال چلااور ایک سال کی کیمو تھراپی کے بعد ڈاکٹرز نے آپریشن کے ذریعے کینسر سے متاثرۂ حصے کونکالنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ ایک کامیاب آپریشن تھا جس کے بعد ڈاکٹرز نے ہمیں امید دلائی کہ اب جیسن کا کینسر تقریباً ختم کیا جا چکا ہے لیکن مکمل شفا یاب ہونے تک اس کا علاج ابھی جاری رکھا جائے گا ۔ آخر دو سال بعد وہ وقت آ گیاجب ڈاکٹرز نے ہمیں بتا یا کہ جیسن اب مکمل طور پر صحت یاب ہے اور اپنے گھر جا کر دوسرے بچوں کی طرح نارمل زندگی گزار سکتاہے ۔