بارک اوبامہ بہت ٹھنڈا اور پروفیسر قسم کا امریکی صدر تھا۔ خواہ مخواہ کی بڑھک بازی کے بجائے بہت سوچ بچار سے کام لیتا۔ کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے قبل طویل اجلاسوں کے ذریعے اپنے مصاحبین سے مشورے کرتا۔ جو مسئلہ زیرغور آتا اس کے بارے میں متعلقہ محکمہ کے تیار کردہ بھاری بھر کم نوٹس کا ہر لفظ اسے زبانی یاد ہوتا۔ اپنے تئیں بھی اس موضوع پر اس نے کئی کتابی اور اخباری مضامین پڑھ کر ایک ٹھوس رائے بنائی ہوتی۔ اپنے مشیروں کے ساتھ ملاقاتوں میں وہ اس رائے کی مدلل مخالفت کی حوصلہ افزائی کرتا۔
مسلسل غور و فکر کی عادت نے نسبتاً جوان اوبامہ کو امریکی صدارت کے آٹھ سالوںکے دوران بوڑھا کر دیا۔ کئی معروف فوٹوگرافروں نے کلوزاپس کے ذریعے غوروفکر کے مسلط کردہ اس بڑھاپے کو بڑی مہارت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
بہت سوچنے اور سمجھنے کے بعد اپنی رائے بنانے والے اس اوبامہ نے مگر تین سال قبل ہی پیوٹن کے ملک-روس-کو محض ’’ایک علاقائی قوت‘‘ قرار دیا جو شام کی خانہ جنگی میں اُلجھ کر خود کو عالمی سطح کی قوت ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ امریکی صدر اور اس کے مصاحبین کو یقین تھا کہ روس،بشارالاسد کی حکومت کو بچانہیں پائے گا۔شام میں فوجی مداخلت اسے بہت مہنگی پڑے گی کیونکہ تیل کی قیمتیں بے پناہ حد تک گر چکی ہیں اور روس کی معیشت کا تمام تر انحصارتیل وگیس کی فروخت سے ہوئی رقوم پر ہے۔ کئی امریکی ماہرین کو بلکہ یقین تھا کہ شام، روس کے لئے ایک اور ’’افغانستان‘‘ثابت ہوگا۔ شام مگر پیوٹن کا ’’افغانستان‘‘ نہیں بنا ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات بلکہ یہ ہے کہ روس محض ایک ’’علاقائی قوت‘‘ بھی ثابت نہیں ہوا۔
ٹھوس حوالوں اور حقائق کے ذریعے امریکہ کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں اب یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ روس کے جاسوسی اداروں کے لئے کام کرنے والے چند ہیکرز نے ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم چلانے والے کئی اہم افراد کے ای میل اکائونٹس تک رسائی حاصل کرلی تھی۔ اس رسائی کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کو بڑی ہوشیاری کے ساتھ امریکی صدارتی انتخاب کے لئے چلائی گئی انتخابی مہم کے فیصلہ کن مراحل کے دوران منظرِ عام پر لایا گیا۔ ہیلری کلنٹن ان معلومات کے افشاء ہوجانے سے حواس باختہ ہوگئی۔ ڈونلڈٹرمپ نے انتہائی ڈھٹائی سے اس کی شرمندگی کا مذاق اُڑایا۔ اس کے حامیوں کو ایک لمحے کے لئے بھی اس حقیقت کے بارے میں فکر نہ ہوئی کہ ازلی دشمن ٹھہرائے ایک ملک نے ان کی رائے عامہ کو متاثر کرنے والی مہارت وقوت حاصل کرلی ہے۔
یہ مہارت وقوت اس لئے بھی حیران کن ہے کہ امریکہ ابھی تک کمپیوٹر سے متعلق تمام تر ٹیکنالوجی کا اجارہ دار ہے۔ میںاور آپ یا دنیا کے کسی بھی ملک کا کوئی صارف جو بھی موبائل فون استعمال کرتا ہے اس کا پروگرام 93فی صد صرف اور صرف امریکہ میں تیار کیا ہوا ہوتا ہے۔ اس پروگرام کے ’’چورراستوں‘‘ کا علم بھی لہذا صرف اور صرف امریکہ کے پاس ہونا چاہیے تھا۔ روس نے اس ضمن میں جو مہارت حاصل کرلی ہے اس نے امریکی ریاست کے دفاع اور سلامتی پر مامور اداروں کو بوکھلاکر رکھ دیا ہے۔ وائٹ ہائوس چھوڑنے سے قبل صدر اوبامہ نے 32کے قریب روسی سفارت کاروں کو ’’جاسوس‘‘ قرار دے کر اپنے ملک سے باہر نکال دیا۔ روس پر ان سفارت کاروں کی مبینہ حرکات کی وجہ سے مختلف النوع اقتصادی پابندیاں بھی عائد کردی گئی ہیں۔ پیوٹن مگر کوئی جوابی کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ امریکی بوکھلاہٹ سے بلکہ لطف اندوز ہورہا ہے اور ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کا خواہاں بھی۔
اپنی بے بسی پر پشیمان ہوئی امریکی اشرافیہ اور اس کے مفادات کی ’’نگہبان‘‘ انٹیلی جنس ایجنسیاں کھلے دل کے ساتھ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنے اور ان کے تدارک کا راستہ ڈھونڈنے کی بجائے اب 35صفحات پر مشتمل ایک دستاویز کو اچھالے چلی جارہی ہے۔ امریکہ کا عالمی رسوخ کا دعوے دار اور خود کو ’’آزاد‘‘ کہنے والا میڈیا بھی بھرپور انداز میں ان کا سہولت کار بن گیا ہے۔
35صفحات پر مشتمل اس داستان کے ذریعے امریکی عوام کو خبردار کیا جارہا ہے کہ روس کے جاسوسی اداروں نے ٹرمپ کی مالی اور جنسی ہوس کو پوری طرح سمجھتے ہوئے اسے کئی ایسی ’’وارداتوں‘‘ کے لئے گھیرا جن کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے۔ اس ریکارڈ کی بدولت ٹرمپ کو بلیک میل کیا جائے گا۔ وہ امریکی مفاد کو ترجیح دینے کی بجائے روس کے ہاتھوں کھیلتا رہے گا۔ قصہ مختصر وہ امریکہ کے لئے ایک ’’سکیورٹی رسک‘‘ بن چکا ہے۔ ٹرمپ اور اس کے حامی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی معاونت سے امریکی میڈیا میں مچائی سکیورٹی رسک والی دہائی سے مگرہرگز پریشان نہیں ہورہے۔ یہ لاتعلقی امریکی تاریخ کے تناظر میں بہت حیران کن ہے۔
پاکستان ایسے ممالک کے لئے امریکی انٹیلی جنس اداروں کی پشیمانی کئی حوالوں سے بہت سبق آموز ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ امریکہ جیسی سپرطاقت جہاں ریاستی اداروں کے کام اور قوت کو چیک کرنے کے بے تحاشہ ادارے موجود ہیں۔ اظہار کی آزادی کو بھی آئینی اعتبار سے یقینی بنایا گیا ہے۔ تحقیق و تعلیم کے لئے دنیا کی 20بہترین مانی یونیورسٹیوں میں کم از کم 17بھی امریکہ ہی میں کام کررہی ہیں۔ وہاں کا میڈیا بھی بہت مستعد اور بے باک ہے۔ ان سب حقیقتوں کے باوجود قومی سلامتی کا جو نام نہاد بیانیہ ہوا کرتا ہے۔ اس پر وہاں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مکمل اجارہ داری ہے۔
اس اجارہ داری کی سنگین ترین مثال ہمیں 2003ء میں دیکھنے کو ملی تھی جب نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کو یقین دلایا دیا گیا تھا کہ عراق کے صدر صدام حسین کے پاس ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیاروں سے لیس کے انبار موجود ہیں۔ ان ہتھیاروں سے نجات کے نام پر عراق پر ایک خوفناک جنگ مسلط کی گئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ صدام حسین سے نجات پانے کے بعد عراقی عوام ایک جاندار جمہوری نظام کے ذریعے اپنی بہتری اور خوش حالی کے بارے میں ازخود فیصلے کرتے ہوئے پوری مسلم امہ کے لئے ایک قابلِ تقلید مثال قائم کریں گے۔
13برس گزرنے، لاکھوں جانوں کے زیاں اور کھربوں ڈالر خرچ ہو جانے کے باوجود بھی تیل کی دولت سے مالا مال عراق جو عرب دنیا میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ملک تھا، جہاں عورتوں کو برابری کے حقوق حاصل تھے اور فرقہ پرستی کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا تھا، ابھی تک ایک قابلِ عمل ملک بھی نہیں بن پایا ہے۔ سنی اور شیعہ کی تفریق وہاں خوفناک حدوں تک پہنچ چکی ہے۔ مسلکی قضیے سے الگ رہ کر عراقی کرد اپنے صوبے کو تقریباً ایک خود مختار ملک کی صورت دیئے ہوئے ہیں۔
سب سے زیادہ خوفناک حقیقت یہ بھی ہے کہ القاعدہ سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہونے والی داعش بھی عراق ہی سے نمودار ہوئی ہے۔ اپنے ابھرنے کے بعد اس نے دہشت گردی کی کئی وارداتوں کے ذریعے یورپی اتحاد کو ہلا کر رکھ دیا۔ اب ترکی میں اردوان کی حکومت بھی اس کے سامنے بے بس ہوتی نظر آرہی ہے۔ اگرچہ چودھری نثار علی خان تواتر کے ساتھ پاکستان میں داعش کے وجود سے انکاری ہیں،مگر کئی عالمی ایجنسیوں نے ہمارے ملک میں اس تنظیم کے بڑھتے ہوئے اثر کو ٹھوس حوالوں کے ساتھ دریافت کرلیا ہے۔ پشاور سے چند ہی کلومیٹر دور واقع افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں داعش کاوجود تو ویسے بھی اب کوئی ’’خبر‘‘ نہیں رہی ہے۔
ڈونلڈٹرمپ مجھے ذاتی طورپر ہرگز پسند نہیں۔ اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود مگر جس انداز میں اس نے اپنے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ’’ذہانت‘‘ اور ’’مہارت‘‘ کو للکارا ہے، اس نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ٹرمپ دانشوارانہ طور پر بہت سطحی اور کئی صورتوں میں چھچھورا نظر آنے کے باوجود بھی قومی سلامتی کے بیانیے پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اجارے پر سوالات اٹھاتے ہوئے آنے والے دنوں میں کئی حوالوں سے ایک ’’انقلابی‘‘ قائد کے طورپر بھی اُبھرسکتا ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں نام نہادانٹیلی جنس کمیونٹی کا بے نقاب ہونا باقی دنیا کے لئے امکانات کے کئی نئے باب کھولنے کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔