یاسر پیرزادہ
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب میں ـایک انگریزی اخبار میں کرائم رپورٹر ہوا کرتا تھا، شہر میں ہونیوالے جرائم کی خبریں اکٹھی کرنا میری ذمہ داری تھی مگر چونکہ میں سب سے جونئیر تھا اس لئے چیف رپورٹر صاحب ہر ایسی جگہ بھی مجھے بھیج دیا کرتے تھے جہاں کوئی اور جانے کو تیار نہ ہوتا۔ ایسے ہی اک روز میں ایک کالعدم تنظیم (جو اُس وقت اپنے جوبن پر تھی اور اُس پر کسی قسم کی پابندی نہیں تھی ) کے اجلاس کی رپورٹنگ کرکے واپس آیا اور خبر بنانی شروع کی، ایک ــ’’ذمہ دار صحافی ‘‘ ہونے کے ناتے میں نے وہ تمام باتیں خبر میں لکھ دیں جولیڈران نے اپنی تقاریر میں کی تھیں، میرے ایک سینئر نے جب دیکھا کہ میں دو ہزار الفاظ کی خبر بنا چکا ہوں اور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تو انہوں نے میری خبر پر ایک نظر ڈالی اور کہا کہ یہ خبر تین چار سو الفاظ سے زیادہ کی نہیں ہونی چاہئے اور اس میں سے وہ تمام زہریلا مواد نکال دو جو ان لوگوں نے اپنی تقاریر میں کہا ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو جو الفاظ انہوں نے کہے وہ آج بھی مجھے یاد ہیں :’’ہمارا اخبار اس قسم کے انتہا پسندانہ خیالات کی تشہیر کرنے کے حق میں نہیں ہے ! ‘‘ یہ بات 1993کی ہے، اب یہ صاحب ٹی وی پر پروگرام کرتے ہیں اور بد قسمتی سے صحافت کے ان اصولوںکی پاسداری نہیں کرتے جو انہوں نے ہمیں سکھائے تھے۔
میں صبح اٹھ کر جتنے کالم نگاروں کے کالم پڑھتا ہوں، جتنے دانشوروں کے تجزئیے ٹی وی پر سنتا ہوں اور جتنے لوگوں کو ٹویٹر پر فالو کرتا ہوں کم و بیش اُن سب کی رائے یہ ہے کہ صحافی کا کام فقط خبر دینا ہے، خبر دینے کی پاداش میں اُس پر کسی قسم کی پابندی آزادی اظہار کے منافی ہے جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں جس کی شدید مذمت کی جانی چاہئے۔اس پر رائے دینے سے پہلے میں ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میںان تمام لوگوں کا فین ہوں، ان صاحب طرز کالم نگارو ں کے اسلوب کا دلدادہ ہوں، ان کے تجزیوں سے رہنمائی لیتا ہوں اور اُ ن کی ذہانت سے بھرپور ٹویٹس سے لطف اٹھاتا ہوں تاہم آج میں ان تمام قابل احترام لوگوں سے اس قدر اختلاف ضرور کروں گا کہ صحافی کا کام خبر دینا ضرور ہے ’’فقط ‘‘ خبر دینا نہیں۔ فرض کریں بھارت میں کشمیر کے مسئلے پر ایک اعلیٰ سطح کا خفیہ اجلاس بلایا جائے، اس میں بھارتی وزیر اعظم سے لے کر اُنکے آرمی چیف سمیت قومی سلامتی سے متعلق تمام اعلی عہدے دار شریک ہوں، اُس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا جائے کہ کشمیر میں آئندہ کسی ممکنہ حملے کی صورت میں فلاں پلان بنا کر عمل کیا جائیگا اور اس پلان کو پلان اے کا نام دیدیا جائے اور پھر ُاس پلان اے کی نقل کسی بھارتی صحافی کے ہاتھ لگے او ر وہ اسے اخبار میں چھاپ دے تو بے شک یہ خبر ٹھیک ہوگی مگر بھارت کے نقطہ نگاہ سے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اس کا اندازہ ایک بچہ بھی لگا سکتا ہے۔ کیا بھارت میں تمام لوگ اسے صحافی کا حق سمجھ کر تسلیم کر لیں گے ؟
یہ درست ہے کہ حکومتیں عوام سے حقائق چھپاتی ہیں جن کا جاننا عوام کا حق ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آزادی اظہار پر کسی قسم کی پابندی در اصل سچائی کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے اور اس بات سے بھی انکار نہیں کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی نے ایک قسم کا متبادل احتساب شروع کیا ہے جس کی اس پہلے مثال نہیں ملتی لیکن بات یہاں مکمل نہیں ہوتی۔ دنیا میں ہر قسم کی آزادی کی کچھ حدود و قیود ہیں، اگر رپورٹر کو صرف خبر ہی دینی ہو اور اخبار کو ویسے ہی شائع کرنی ہو تو پھر اخبار میں ایڈیٹر کا عہدہ ہی نہ ہو اور رپورٹر سیدھا جا کر اپنی خبر کی کاپی جڑوائے اور وہ اگلے روز اخبار میں چھپ کر نکل آئے مگر ایسا نہیں ہوتا، آئے دن خبریں فائل ہوتی ہیں، ایڈیٹر ان کی کانٹ چھانٹ کرتے ہیں، کچھ خبریں روک لی جاتی ہیں، کچھ کاٹ کر چھاپی جاتی ہیں،اگر رپورٹر کا کام فقط خبر دینا ہو تو یہ سارا سسٹم بنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ صحافی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں پتہ ہے کہ ملکی مفاد کیا ہے مگر جب اس کے تحفظ کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہمارا کام نہیں، ہم نے بم کو لات مار دی ہے اب باقی کام حکومت سنبھالے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر خود ہمارے خلاف کوئی خبر شائع ہونے لگے(چاہے درست ہی کیوں نہ ہو) تو ہم اسے رکوانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ملکی مفاد کے خلاف خبر کو یہ کہہ کر جانے دیتے ہیں کہ ہمارا کام بس خبر دینا ہے، قومی سلامتی حکومت جانے اور اس کا کام۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قومی سلامتی کے نام پر کوئی بھی حکومت کچھ بھی کر گزرے کیونکہ اگر یہ روایت شروع ہوئی تو گٹر ابلنے کی خبر بھی قومی سلامتی کے منافی سمجھی جائے گی۔
ایڈورڈ سنوڈن نے امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے جو راز افشا کئے وہ امریکی حکومت کے نقطہ نگاہ سے بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں مگر حقیقت میں اس نے امریکی عوام کو آئین میں دی گئی شخصی آزادی کا تحفظ کیا،اسی طرح آئے روز دنیا میں کرپشن اور سیکس اسکینڈل شائع ہوتے ہیں، سیاست دانوں کے غیر قانونی فیصلو ں کی ا سٹوریاں شائع کی جاتی ہیں، صحافی حکومتوں کی ناراضی مول لے کر خبریں شائع کرتے رہتے ہیں اور یہی ان کا کام ہے کیونکہ اگر صحافی یہ کام چھوڑ دیں تو پھر حکومتوں کی من مانیوں پر کسی قسم کی روک ٹوک نہیں رہے گی سو دنیا میں چوہے بلی کا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔تاہم بعض معاملات میں بہرحال احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، محض یہ کہہ کر کام نہیں چلایا جا سکتا کہ ہمارا کام فقط خبر دینا تھا۔اس پورے معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ممکن ہے کوئی شخص درست بات کہہ رہا ہو، مگر حالات میں آپ کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق بھی نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود آپ حق بات کہنے سے بازنہیں آتے،ایسے میں آپ کو سچائی کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ذاتی طور پر اگر سچائی کی قیمت چکانی پڑے تو آدمی راتوں رات ہیرو بھی بن سکتا ہے، لیکن اگر ایسی سچائی کی قیمت ملک کو چکانی پڑے تو یہ معاملہ آزادی اظہار سے آگے نکل جاتا ہے۔سو، آزادی اظہار کیلئے قابل احترام صحافی حضرات جو کچھ کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے مگر ’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام، آفاق کی اس کارگاہ شیشہ گری کا‘‘۔