میں نے تین ماہ پہلے یہ پیش گوئی کی تھی کہ بجٹ سے پہلے روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 150 روپے تک پہنچ جائے گا۔ اب تازہ ترین معاشی اعشاریوں کے پیش نظر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بجٹ کے بعد روپیہ کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 160 سے 165 تک پہنچ جائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاکہ روپے کی قدر مزید کم نہ ہو۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے یہ سمجھوتہ کیا ہے کہ روپے کی قدر کو مزید کم کیا جائے گا۔ ہمارے معاشی منتظمین کو یہ علم ہونا چاہئے کہ آئی ایم ایف کا اپنا خفیہ ایجنڈا ہے وہ پاکستان کو مزید بلیک میل کریگا۔ روپے کی شرح کے گرنے سے پاکستانی معیشت پر مضر اثرات مرتب ہونگے۔ قیمتوں کا گراف مزید اوپر جائے گا۔ افراطِ زر میں مزید اضافہ ہو گا۔ اسی طرح درآمد کردہ ضروری اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔
آئی ایم ایف کی ان شرائط نے پاکستانی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان شرائط کی وجہ سے عام آدمی کی نیندیں اُڑ گئی ہیں۔ قیمتوں میں مزید اضافہ پاکستانیوں کے لیے ایک بھیانک خواب بن جائے گا۔ موجودہ حکومت اور ہمارا نظام حکومت عام آدمی کو کوئی ریلیف دینے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک میں کونسی جمہوریت ہے لیکن اہم ترین فیصلے کرتے وقت پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ قومی فیصلوں میں بھی اجتماعی دانش کا فقدان نظر آتا ہے۔ موجودہ نظام ملکی بحران کو حل کرنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کر رہا۔ اس کے برعکس ہم الزام تراشی کا گندہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ طاقتور مافیاز کا سنڈی کیٹس بلیک اکانومی کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ یہ بلیک اکانومی ملک کی دستاویزی اکانومی ہے لیکن زیادہ بڑی ہے۔ بلیک منی مافیا اپنے اثر و رسوخ سے اہم عہدوں پر تقرریاں کرانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ مجھے یہ کہنے دیں کہ بلیک منی مافیا اس ملک کا کالا بجٹ بنا رہا ہے۔ ہمارے عام بجٹ کے مقابلے میں ان کا بجٹ زیادہ اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر پہلے ہی کم کرنا شروع کرائی گئی تھی۔ نئے ٹیکس آئی ایم ایف کی شرائط کا حصہ ہیں لیکن اکنامک ٹیم نے ان باتوں کو مخصوص مفادات کی خاطر عوام سے اس لیے پوشیدہ رکھا ۔ موجودہ اکنامک سسٹم نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے جو شرائط آئی ایم ایف نے لگائی ہیں ان کے پیچھے مہنگائی کا سونامی قیمتوں کو آسمان تک پہنچا دے گا۔ عوام کا خیال تھا کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھائے گی۔ حکومت کی کابینہ کے ارکان پٹرولیم کی قیمتیں بڑھانے کے مخالف تھے لیکن اس کے باوجود پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ آئی ایم ایف سے ڈیل سے پہلے پٹرول کی قیمت میں 9 روپے فی لٹر اضافہ کر دیا گیا۔ گزشتہ پانچ برس میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ اس کے نتیجے میں عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ عوام کی موجودہ معاشی مشکلات کا ذمہ دار ہے۔ تاجروں اور دکانداروں کو مقررہ قیمتوں پر اشیائے صرف فروخت کرنے کا پابند بنایا جا رہا ہے۔ گوشت کی قیمتوں میں 25 روپے سے 70 روپے تک فی کلو اضافہ کا اعلان کیا گیا۔ بلکہ گوشت فروش قصابوں نے گوشت 950 روپے فی کلو سے بڑھا کر 1050 روپے کلو کر دیا ہے۔ چکن 360 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ اس سال مارچ میں چکن 311 سے 320 روپے فی کلو فروخت ہو رہا تھا۔ تیل اور گھی فروخت کرنے والوں نے 200 روپے فی لٹر کھانے کے تیل میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایک ماہ سے تیل 180 روپے کلو فروخت کیا جا رہا تھا۔ حکومت نے سال میں پٹرول کی قیمت میں 17 فیصد اضافہ کرکے مہنگائی کا ایک بم عوام پر چلا دیا ہے۔ اس طرح ڈیزل اور فرنس آئل کی قیمت بھی بڑھا دی گئی۔
بدقسمتی سے یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ چند دنوں میں حکومت نے اگلے۔ سال کا بجٹ پیش کرنا ہے جس میں اربوں روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے جن سے مہنگائی اور بڑھے گی۔ بجٹ کا خسارہ ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ بجٹ کا خسارہ 438 کھرب تک پہنچ گیا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کیلئے حکومت کو مزید رقم کی ضرورت پڑے گی۔ حکومت نے جو کشکول اٹھایا ہوا ہے‘ اسے فوری طورپر پاکستان کے عام آدمی پر ٹیکسوں کے بوجھ سے پورا کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف ایک سفاک ادارہ ہے۔ وہ اپنے ایجنڈے پر کام کرتا ہے۔ نیا بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کے دائرے میں بنایا جائے گا۔
پاکستان کو غریب اور غذائیت کی کمی کا شکار قوموں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ جس فہرست میں پاکستان کو شامل کیا گیا ہے‘ اس میں شامل باقی ممالک کی حالت پاکستان سے بہتر ہے۔حکومت کی معاشی پالیسیاں پاکستان کے وقار اور عزت کو بین الاقوامی طورپر داغدار کر دیں گی۔ ہمارے معاشی منتظمین کو موجودہ بحران سے نکلنے کیلئے راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد سے پاکستان دیوالیہ پن کا شکار ہو جائے گا۔