لاہور: پاکستان تحریک انصاف کا ’’ٹکٹ‘‘ اس وقت انتخاب لڑنے کے خواہشمند سیاستدانوں کیلئے ’’ہما‘ کی مانند تصور کیا جا رہا ہے کہ یہ جس کے سر پہ بیٹھے گا وہ جیت جائے گا۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، ق لیگ چھوڑنے کیلئے تیار بیٹھے الیکٹ ایبلز کے ساتھ ساتھ مضبوط حیثیت رکھنے والے آزاد امیدواروں کی اولین ترجیح بھی تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن لڑنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شمولیت اختیار کرنے کیلئے رابطے کرنے والوں کے ’’کھڑکی توڑ رش‘‘ نے جہانگیر ترین کو گھیر رکھا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف میں شمولیت کیلئے گرین سگنل دینے کا اختیار عمران خان نے جہانگیر ترین کو سونپ رکھا ہے۔ شمولیت کے خواہشمندوں سے ملاقات، ان کی سیاسی و سماجی حیثیت کی تصدیق، ووٹرز میں مقبولیت، بالخصوص آئندہ الیکشن میں ٹکٹ کے حوالے سے معاملات طے کرنا یہ سب امور جہانگیر ترین کے ذمہ ہیں۔ جس شخصیت کے بارے میں جہانگیر ترین ’’کلیئرنس‘‘ دے دیتے ہیں عمران خان اسے تحریک انصاف میں شمولیت کی اجازت دے دیتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اس وقت پارلیمانی سیاست اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مستقبل کے معاملات کے حوالے سے الگ محاذ سنبھالے ہوئے ہیں لہذا ان کی شمولیت والے امور میں توجہ کم ہے۔ عالم یہ ہے کہ ایک ایک ضلع سے طاقتور امیدواروں کی اتنی تعداد ہو رہی ہے کہ تحریک انصاف کیلئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت نے تمام طاقت اور توجہ 29 اپریل کو مینار پاکستان پر ہونے والے جلسہ کی کامیابی پر مرکوز کردی ہے۔ پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ یہ جلسہ اکتوبر2011 ء کے جلسہ کا ریکارڈ توڑ دے جس طرح سے جلسہ کی تیاریوں کا آغاز ہوا ہے،اس سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ یہ جلسہ پاکستانی تاریخ کے بڑے جلسوں میں شامل ہو جائے گا۔ عمران خان نے جلسہ کے انتظامات کی ذمہ داری صدر سنٹرل پنجاب عبدالعلیم خان اور رکن پنجاب اسبلی شعیب صدیقی کو سونپ دی ہے جنہوں نے دو روز قبل 11 اضلاع کے 400 سے زائد نمایاں رہنماوں کو لاہور میں مدعو کر کے ان کے ساتھ جلسہ کی تیاریوں کے حوالے سے مشاورت کی ہے جبکہ اسی اجلاس میں جلسہ کیلئے درکار فنڈز کیلئے فنڈ ریزنگ کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔ عبدالعلیم خان نے پارٹی پالیسی بنائی ہے کہ جو رہنما صوبائی حلقہ سے ٹکٹ کے حصول کیلئے پارٹی کو درخواست دے رہے ہیں۔
وہ 2 لاکھ روپے جبکہ قومی اسمبلی کی ٹکٹ کیلئے درخواست دینے والے 4 لاکھ روپے پارٹی فنڈ جمع کروائیں گے۔ اس موقع پر بعض اہم رہنماوں نے بڑی رقم پارٹی فنڈ میں دینے کا بھی اعلان کیا۔ جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان، چوہدری سرور سمیت متعدد اہم رہنماوں نے مینار پاکستان جلسہ کیلئے بھاری رقوم پارٹی فنڈ کیلئے مختص کردی ہیں۔ این اے136 سے ٹکٹ کے امیدوار جمشید اقبال چیمہ نے 50 لاکھ روپے، پی پی 147 اور پی پی 57 سے نعمان چٹھہ نے 25 لاکھ، پی پی 166 سے ٹکٹ کے امیدوار نذیر چوہان نے 25 لاکھ روپے کا اعلان کیا ہے جبکہ لاہور سے خاتون رہنما ثانیہ کامران نے 10 لاکھ روپے فنڈ دیا ہے۔
ثانیہ کامران کا نام پارٹی قیادت کی فہرست میں پنجاب اسمبلی کی مخصوص خواتین نشستوں کیلئے ممکنہ ا میدواروں میں شامل ہے۔ مینار پاکستان جلسہ کی تیاریوں کیلئے دو روز قبل عبدالعلیم خان نے شعیب صدیقی، شوکت بھٹی، اعجاز ڈیال، جمشید چیمہ، ظہیر عباس کھوکھر، اصغر گجر، فرحت عباس، فاروق خان، آجاسم شریف، یاسر گیلانی سمیت دیگر رہنماوں کے ہمراہ مینار پاکستان گراونڈ کا دورہ کیا اور جلسہ گاہ کی تیاریوں کیلئے مشاورت کی ہے۔ دوسری جانب ڈپٹی کمشر لاہور نے تحریک انصاف کو مینار پاکستان جلسہ کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے لیکن یہ ’’انکار‘‘ درحقیت آف دی ریکارڈ’’اقرار‘‘ ہی ہے،25 یا26 اپریل تک سرکاری افسر انکار کرتے رہیں گے اور پھر چند ٹرمز آف ریفرنس طے کر کے اجازت دے دی جائے گی۔ چند روز قبل اسی گراونڈ میں جماعت اسلامی نے یوتھ کنونشن اور تحریک لبیک نے ختم نبوت کانفرنس منعقد کی تھی اور انتظامیہ انہیں روک نہیں پائی تھی۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان بھر سے ڈیڑھ، دو لاکھ سیاسی کارکن آن پہنچیں اور انتظامیہ انہیں روک سکے۔
مینار پاکستان جلسہ کیلئے پشاور ،کوئٹہ اور کراچی سے خصوصی ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں جبکہ 28اپریل کو مینار پاکستان پر جشن منایا جائے گا۔ پرویز خٹک ہزاروں افراد کے قافلہ کے ہمراہ پشاور سے لاہور پہنچیں گے۔ 29 اپریل کا جلسہ تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا آغاز ہے، اس روز عمران خان انتخابی منشور پیش کریں گے جبکہ اس امکان کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ 29 اپریل کو اسٹیج پر ن لیگ کے ’ ’حاضر سروس‘‘ اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد آکر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر سکتی ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی جانب سے عمران خان پر سخت ترین الفاظ کے ساتھ بیان بازی کرنے کے حوالے سے وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف کا نام سر فہرست ہے۔ خواجہ آصف نے اسمبلی کے ایوان میں عمران خان کی موجودگی میں تقریر کرتے ہوئے ’’کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیا ہوتی ہے‘‘ کا مشہور جملہ بولا تھا جو اب ضرب المثل بن چکا ہے اور میاں نواز شریف سمیت اہم لیگی رہنماوں کے بارے میں بھی سنائی دیتا ہے۔ عمران خان کی نیگیٹو لسٹ میں شریف فیملی کے بعد خواجہ آصف کا ہی نام آتا ہے۔ خواجہ آصف کو دو دہائیوں تک سیالکوٹ میں کسی مد مقابل کا سامنا نہیں تھا لیکن 2013 ء کے الیکشن میں عثمان ڈار نے خواجہ آصف کے مقابلے میں الیکشن لڑا اور خواجہ صاحب کو لوہے کے چنے چبوا دیئے۔ عثمان ڈار نے خواجہ آصف کے خلاف نا اہلی کا کیس بھی دائر کر رکھا ہے جو اس وقت فیصلہ کن مرحلہ میں ہے اور خواجہ آصف کے حالات زیادہ بہتر معلو م نہیں ہو رہے ان کے قائد میاں نواز شریف نے قطری خط عدالت میں پیش کیا تھا اور خواجہ صاحب نے اماراتی خط لا کردیا ہے۔
سیالکوٹ میں تحریک انصاف کی پوزیشن پانچ برس قبل کی صورتحال کے مقابلے اس وقت بہت مضبوط ہے جس کا بڑا کریڈٹ عمر ڈار، عثمان ڈار، عظیم نوری گھمن، اسلم گھمن،عمر مائر جیسے رہنماوں کو جاتا ہے۔ چند ہفتے قبل عمران خان نے دیہی سیالکوٹ کا دورہ کیا تھا اور وہاں ان کا بھرپور استقبال کیا گیا ہے جبکہ آئندہ ماہ عمران خان نے سیالکوٹ کے اربن ایریاز کا دورہ کرنا ہے۔ سیالکوٹ کے قومی انتخابی حلقوں پر تحریک انصاف کے پاس اچھے امیدوار موجود ہیں۔ این اے 75 میں عثمان ڈار کی ٹکٹ کنفرم ہے جبکہ ان کے ذیلی صوبائی حلقہ پی پی 44 میں سابق ایم پی اے چوہدری اخلاق کو ٹکٹ ملنے کا قوی امکان ہے۔ یہاں سے عمر مائر بھی ٹکٹ کے خواہشمند ہیں۔ پی پی 45 میں میاں شکیل، مہر ارشد، میاں ریاض، مہر عاشق میں سے کوئی ایک الیکشن لڑے گا ۔
این اے76 میں سابق سپیکر چوہدری امیر حسین، میاں عابد جاوید، میاں نعیم جاوید اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو مقامی سطح پر تحریک انصاف کی مکمل تائید حاصل نہیں ہے اور وہ جب سے تحریک انصاف میں شامل ہوئی ہیں انہیں پارٹی کے اندر مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے۔ این اے 72 میں آصف باجوہ مضبوط امیدوار ہیں جبکہ این اے73 ڈسکہ میں علی مظہر ملہی ٹکٹ کے امیدوار ہیں، این اے 74 سے عظیم نوری گھمن کو ٹکٹ ملے گا جبکہ ان کے بڑے بھائی سابق کمانڈر آئی ایس آئی پنجاب بریگیڈئیر(ر) اسلم گھمن صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑ سکتے ہیں۔