شاعری وہ طرز اظہار ہے جو یوں لگتا ہے مجھے ورثے میں ملا تھا۔ میرے والد اور دونوں تایا شاعر تھے۔ تایا کا مجموعہ کلام بھی چھپا اور والد عہد جوانی میں امرتسر سے ایک ادبی رسالہ نکالا کرتے تھے۔ ہجرت کی دربدری اور غم روزگار نے انھیں مہلت ہی نہ دی کہ اپنے اس فن میں کمال دکھاتے‘ البتہ گھر کے ماحول میں جہاں میں نے قرآن و حدیث اور فقہ کے رموز سے آشنائی حاصل کی‘ وہیں ہر مرحلے پر میر و سودا‘ داغ و مومن اور جگر و اصغر کے اشعار اپنے بزرگوں کی گفتگو میں موتیوں کی طرح پروئے ہوئے ملتے۔ لیکن تین ایسے شعراء تھے جن کا کلام مجھے خاص طور پر سمجھنے کے لیے اور اسے زندگی سے مربوط کرنے کے لیے کہا جاتا‘ ایک مولانا روم کی مثنوی‘ دوسری الطاف حسین حالی کی مسدس اور تیسرے علامہ اقبال۔ مجھے ان تینوں کی محبت اور شاعری بالعموم ورثے میں میسر آئی۔
یہی وجہ ہے کہ میں نے پہلا شعر صرف سات سال کی عمر میں کہا اور بارہ سال کی عمر میں میری شاعری چھپنے لگی۔ 1988 میں میری شاعری کی کتاب ’’قامت‘‘ شایع ہوئی تو اس کی تقریب رونمائی میں ملک بھر سے جتنے بھی ادیب‘ شاعر کوئٹہ تشریف لائے‘ انھوں نے اپنے مضامین میں اس بات پر زور دیا کہ میری شاعری میں ایک ڈرامائی تاثر پایا جاتا ہے اور یہ ایک مسلسل منظوم ڈرامہ لگتی ہے‘ اس لیے مجھے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامہ لکھنا چاہیے۔ ٹیلی ویژن کے جو ارباب تقریب میں موجود تھے‘ بعد میں سب میرے پیچھے پڑ گئے کہ میں ڈرامہ لکھوں۔ میں اس زمانے میں اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ تھا اور کوئٹہ افغان جنگ کی وجہ سے دھماکوں کی زد میں تھا۔ فرصت کا ایک لمحہ بھی میسر نہ تھا لیکن کوئٹہ سینٹر کا جنرل منیجر مصطفے مندوخیل سخت جان نکلا۔ مستقل چھاؤنی ڈالے مجھے مجبور کرتا رہا۔ ایک دن وہ کوئٹہ سے اسلام آباد جانے کے لیے ایئرپورٹ روانہ تھا۔ مجھے ساتھ بٹھایا اور کہا کہ میں ہیڈ کوارٹر کانفرنس میں جا رہا ہوں۔ میرے پاس کوئی آئیڈیا نہیں ہے‘ اگلی سہ ماہی کے لیے‘ آپ ڈرامے کا کوئی آئیڈیا دے دیں۔
اس کی مستقل مزاجی نے مجھے مجبور کیا۔ زبانی ڈرامے کا پلاٹ بتایا‘ واپسی پر یہ منظور ہو چکا تھا۔ میرا یہ ڈرامہ ’’روزن‘‘ ان نفسیاتی بیماریوں پر تھا جو روز مرہ لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں‘ جیسے ناخن چبانا‘ ٹانگیں مسلسل ہلانا‘ ہاتھ دھونا‘ بار بار دروازے کی کنڈی چیک کرنا وغیرہ۔ اس ڈرامے کی ہیروئن سے ایک بیوروکریٹ عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور شادی کرنے کے لیے اپنی جائداد کی وسعت اور خاندانی عظمت کی کہانیاں سناتا ہے۔ ادب دوست اور ایماندار باپ کی یہ نفسیات دان ہیروئن بیٹی اسے ایک فقرہ بولتی ہے ’’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں جو بھی بیوروکریٹ بن جاتا ہے اس کے والدین رئیس اور امیر ہو جاتے ہیں اور جو ہیروئن کامیاب ہو جاتی ہے اس کے والدین روایت پسند‘ شریف اور بیٹیوں کے لیے اتنے سخت کہ ان کا باہر بے پردہ جانا بھی پسند نہیں کرتے‘‘۔ اس ڈائیلاگ کی گونج مدتوں اخبارات کے تبصروں میں نظر آتی رہی۔
آپ نوے کی دہائی سے پہلے کسی پاکستانی ہیروئن کا انٹرویو اٹھا لیں‘ ایسے لگے گا جیسے وہ گھریلو ماحول سے بغاوت کر کے فلم انڈسٹری میں آئی تھی۔ اگرچہ کہ سعادت حسن منٹو کی کہانیوں نے کتنی ایسی ہیروئنوں کے پول کھولے‘ مگر یہ بھی کمال کی تھیں‘ کسی نے باپ کو سخت مزاج بتایا اور کسی نے بھائیوں کو اور آخر میں کہیں ماموں کی ضمانت پر اور کہیں کسی ’’نیک دل‘‘ پڑوسی کی ضمانت پر جو فلموں میں کیمرہ مین یا اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٹائپ تھے‘ اسٹوڈیو جانے کی اجازت ملی۔ اسی طرح بیوروکریٹ جس کی جائداد کی وسعت اس کی آمدن سے کئی گنا زیادہ ہوتی‘ وہ اپنی خاندانی اور پشتینی جائداد کے قصے ضرور سناتا۔ بدنام ہونے کے باوجود ان کی ڈھٹائی قائم رہتی۔ جیسے ہی کوئی نوجوان بیوروکریسی میں مال بنانے لگتا تو اچانک اس کے والد یا سسر کے کاروبار اور جائداد میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ ہو جاتا۔ سسر تو پھر بیٹی کو جائداد منتقل کر دیتا‘ لیکن باپ بہت ظالم ہوتے۔ یہ اپنی جائداد‘ مل وغیرہ یا تو بہو کے نام کرتے یا پھر پوتے پوتیوں کے نام۔ بیوروکریٹ بیچارہ غریب کا غریب رہتا۔ بیوروکریسی میں کامیاب کہلانے والے سرکاری افسروں کا ایک یار‘ مربی‘ دوست ضرور ہوتا ہے جو ان پر جان نہیں بلکہ دولت نچھاور کرتا ہے۔
بیٹے نے باہر پڑھنا ہے‘ تمہارا ’’بھائی‘‘ حاضر‘ مکان بنانا ہے‘ ’’بھائی‘‘ حاضر‘ باہر ملک سیر کو جانا ہے ’’بھائی‘‘ حاضر‘ بیوی یا سالے نے کاروبار کرنا ہے‘ ’’بھائی‘‘ حاضر۔ پورے ملک کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ شخص افسر کا قریب ترین بندہ ہے‘ ہر جائز و ناجائز کام اسی سے نکلوایا جاسکتا ہے۔ یوں سب کام چلتے ہیں اور افسر قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں نے ایک پیسہ کبھی رشوت نہیں لی۔ باپ دادوں کو نسلی امیر بنانے اور اولادوں کو کاروبار میں کامیاب دکھانے کی رسم بہت پرانی ہے۔ دفتروں میں بیٹھے بیٹھے کئی بیوروکریٹ اپنے پی اے سے بیٹے کو فون کروائیں گے‘ پھر لوگوں کی موجودگی میں اسے پیسے بھجوانے کو کہیں گے‘ یہ پیسے پی اے کے ذریعے آئیں گے‘ بینک میں منتقل ہوں گے تاکہ پتہ چلے کہ اگر بیٹا یا باپ پیسے نہ بھیجے تو صاحب کلب کا خرچہ‘ گالف کی کٹ‘ یورپ کی سیر کیسے کرتے۔ گزشتہ ساٹھ سالوں میں اس ملک میں یہی چل رہا ہے۔
زرعی ٹیکس اس لیے نہیں لگایا جاتا کہ اپنی تمام ناجائز آمدنی کو زرعی زمینوں کے کھاتے میں ڈالنا ہوتا ہے۔ کسی کو کیا پتہ ان زمینوں پر دس سال پہلے کیا اگتا تھا اور کتنے میں فروخت ہوتا تھا۔ پٹواری اور گرداور وہاں جب چاہیں سونا اگوا دیں۔ یہی معاملہ اولاد کے کاروبار کا ہوتا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس ملک میں صرف سیاست دانوں‘ بیوروکریٹس‘ ججوں اور جرنیلوں کے بچوں کے کاروبارایسے چمکتے ہیں جیسے مٹی کو ہاتھ ڈالیں تو سونا بن جائیں۔ باقی بیچارے تو ساری زندگی ٹیکس کے حکام‘ بیوروکریسی کے سرخ فیتے اور بھتہ خوروں سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے ان بددیانت افراد کا ایک رویہ عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ عام آدمی نے اگر کوئی جرم کیا ہو تو وہ اپنے آپ کو پیش کرتا ہے لیکن والدین اور اولاد کو اس کے شر سے بچاتا ہے، وہ کسی نہ کسی بہانے اپنے جرم کا خود ہی دفاع کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ بددیانت لوگ کبھی مرحوم والدین کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی اولاد کو تھانے کچہریوں میں بدنام ہونے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک کامیاب سابق بیوروکریٹ ان الزامات کی زد میں آئے تو ملک سے فرار ہو گئے اور بیٹی کے لاکر کھولے گئے اور حوالات میں اس کی تصویریں اخباروں کی زینت بنیں ان دنوں وہ ایک کامیاب سیاست دان بن چکی ہیں۔
لیکن اب ایک نیا دستور اور نیا رواج اس ملک کی تاریخ میں وکلا کی ذہنی اختراع نے پیدا کر دیا ہے۔اب نہ ملک میں کسی یار‘ مربی‘ دوست ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ ثابت کرنے کی حاجت کہ والدین کا کاروبار یا جائداد کیسی تھی۔ والدین دیوالیہ بھی ہو جائیں تو آپ عرب ممالک میں ایک شہزادہ یا کوئی امیر آدمی ڈھونڈیں اور اس سے ایک معاہدہ کر لیں یعنی آپ کے پاس ناجائز کمائی کے ایک ارب درہم ہیں۔ آپ 25کروڑ درہم اس کو دیں اور وہ آپ کے وکیل کی مدد سے ایک کہانی تیار کرے گا کہ اس بددیانت بیوروکریٹ یا سیاست دان کے والد اکثر قافلوں کے ساتھ حج کرنے آتے تھے‘ میرے دوست بن گئے‘ پھر ایک دن وہ اپنا درہم‘ ریال اور ڈالروں سے لدا ہوا ایک اونٹ مجھے دے کر کہنے لگے‘ اسے اپنے کاروبار میں لگاؤ‘ اور دیکھو وہ جو میرا بیٹا بیوروکریٹ یا تاجر ہے وہ بہت ناخلف ہے‘ اسے اس دولت کی ہوا بھی نہ لگنے دینا‘ البتہ اس کی بیٹی‘ بیٹوں یا بیوی کو اس کی آمدن پہنچا دینا۔ اللہ تمہیں جزا دے گا۔
اگر یہ کہانی اس ملک میں ایک دفعہ چل نکلی اور مان لی گئی تو پھر ہر بددیانت بیوروکریٹ‘ تاجر یا سیاست دان عرب ممالک میں اپنے لیے ایک ایسا فرد ڈھونڈ نکالے گا جو اس کے والد کا دوست اور کاروباری شریک ہو گا۔ عرب ریاستوں کے افراد کو پہلے ہی سے کفیل بننے کی عادت ہے۔آپ سرمایہ لگاتے ہیں اور وہ کفیل بن کر اس میں مفت حصہ وصول کرتے ہیں۔ یہ تو ان کا عمومی کاروبار ہے۔ اب آپ کو کرپشن چھپانے کے لیے زیادہ تردد کی ضرورت نہیں۔ نیب‘ انکم ٹیکس‘ ایف آئی اے‘ کسٹم‘ اینٹی کرپشن سب دفاتر میں کسی عرب شاہزادے کا خط پیش کرو اور ساتھ وکیل ایک کہانی بیان کرے‘ پھر دیکھو آپ کی تمام دولت‘ مال و متاع حلال بن جائے گا۔ آپ بھی عزت دار سرکاری ملازم یا سیاست دان کہلائیں گے اور دوست عرب ممالک کے لیے پاکستان میں کاروبار کے نادر مواقع کھل جائیں گے۔ اس ملک اور دوست عرب ممالک پر وزیراعظم نواز شریف کے کسقدر احسانات ہیں۔