یہ کہنا غلط ہو گا کہ بلدیاتی الیکشن میں حکمران پارٹی کے امیدواروں کو ہی کامیابی ملتی ہے۔
مودوہ حکومت ٹیکنیکل طور پر اب جانے والی ہے، پانچ سال کی ٹرم کا بیشتر عرصہ بیت چکاا ور صرف ڈیڑھ برس کا عرصہ باقی ہے۔ اس لحاظ سے حکمرانی والا تاثر دل کو لگتا نہیں۔
تو پھر مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ضلعی انتخابات میں بھاری اکثریت کیوں حاصل ہوئی۔اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جو سمجھ میں بھی آتی ہیں۔بڑی وجہ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنی گزری ٹرم میں ایسے کام کئے ہیں جو ووٹوں کی ٹوکری بھرنے کا سبب بنے۔
ویسے میاںنواز شریف نے کہا ہے کہ اگر دھرنے کی رکاوٹیں درپیش نہ ہوتیں تو وہ بجلی کی کمی کا مسئلہ اب تک حل کر چکے ہوتے اور یہ جو دو چار گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، اس سے بھی نجات مل چکی ہوتی۔
اور کیا بڑا کام کیا ہے ا س حکومت نے جو اس کی بلدیاتی کامیابی کا سبب بن گیا۔یہ کام ہے دہشت گردی کے خاتمے کا۔ ملک میں اب وہ حالات نہیں ہیں جو حکومت کے آغاز پر درپیش تھے۔ کہ ایک روز میں پانچ چھ دھماکے اور خود کش وارداتیں ، اس میں شک نہیں کہ دہشت گردہی کے خاتمے میں مسلح افواج نے مرکزی کردارا دا کیا ہے مگر یہی مسلح افواج جنرل مشرف اور صدر زرداری کو بھی میسر تھیں ۔ ان کے دور میں مسلح افواج سے کام نہ لیا جاسکا، میاں نواز شریف کے دور میں خاص طور پر آرمی پبلک اسکول کے سنگین اور المناک سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا، اور ضرب عضب کے لئے قومی اتفاق رائے تشکیل پایا۔ مسلح افواج کوئی ایسی جنگ نہیں جیت سکتیں جس میں عوام اس کی پشت پر نہ ہوں، میاںنواز شریف نے پاکستانی عوام کو بہر حال ملکی افواج کے شانہ بشانہ کھڑا کر دیا۔
وزیر داخلہ دو مرتبہ یہ واضح کر چکے ہیں کہ ضرب عضب کاا ٓغاز مکمل مشاورت سے ہوا اور یہ تاثر غلط ہے کہ فوج نے اپنے طور پر یہ آپریشن شروع کر دیا، چودھری نثار کا کہنا ہے کہ ضرب عضب کے لئے ایک تاریخ بھی مقرر کی گئی مگر بعد میں اسی روز افغانستان میں الیکشن شروع ہو گئے تو کسی غلط فہمی سے بچنے کے لئے نئی تاریخ طے کی گئی، یوں حکومت اور فوج نے یہ کام باہمی مشاورت سے شروع کیا ۔خدا کا شکر ہے کہ یہ آپریشن کامیاب ہوا، پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں رنگ لائیں، ایف سی، پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور یوں آج کا پاکستان دو ہزار تیرہ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے۔
اور یہ بھولنے نہ پائیں کہ سی پیک پر پیش رفت نے اس حکومت کی واہ واہ میں اضافہ کیا ہے۔سی پیک کے روٹ پر ٹرکوں کا پہلا تجارتی قافلہ سفر کر چکا ہے اور یہ سارا سامان بحری جہازوں کے ذریعے گوادر سے دنیا کی مختلف مارکیٹوں کو روانہ بھی کر دیا گیا، اس طرح سی پیک کی بسم اللہ ہو گئی ہے۔سی پیک کے لئے نواز شریف ا ور شہباز شریف نے چین کے بیسیوں دورے کئے، مذاکرات پر مذاکرات ہوئے اور پھر چینی صدر کی پاکستان میں آمد پر یہ تمام معاہدے رو بہ عمل آ گئے، چین کی اس مالی معاونت نے حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ووٹروں کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے۔
دوسری طرف اکیلے اسحق ڈار نے محیرالعقول کام کردکھایا ہے، ایک وقت تھا کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ سر پہ منڈلا رہا تھا اور آج اللہ کا کرم ہے کہ پاکستان کے خزانے میں اٹھارہ ارب ڈالر کا زر مبادلہ جمع ہے۔یہی نہیں پاکستان نے آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے وعدہ کیا تھا کہ جس رزق سے ا ٓتی ہو پرواز میںکوتاہی ،ا س سے نجات حاصل کریں گے۔ اور یہ معجزہ ہو گیا۔ یہ وعدہ ایفا کر کے اسحاق ڈار نے اپنی جماعت کی کامیابی کی ضمانت فراہم کر دی ۔
حکومت نے بڑی حد تک سیاسی سوجھ بوجھ اور دور اندیشی کا بھی مظاہرہ کیا، ایک طرف اس نے میثاق جمہوریت سے پیپلز پارٹی کو نیوٹرلائز کئے رکھا ، دوسری طرف اس نے تحریک انصاف کے دھرنوں، لانگ مارچوںا ور لاک ڈاﺅن پر اپنے اوسان خطا نہیں ہونے دیئے، میاںنواز شریف ویسے بھی مضبوط اعصاب کے مالک ہونے کی شہرت رکھتے ہیں، انہوںنے طویل سیاسی سفر میں بہت کچھ سیکھا اورا س تجربے کو بروئے کار لانے میں ان کی مہارت قابل ستائش ہے۔ایک تحریک انصاف کو چھوڑ کر سبھی سیاسی مذہبی جماعتیں ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہیں ۔ اور جمہوریت کو بچانے کے لئے تو تحریک انصاف بھی ان کے ساتھ ہے۔حتی کہ بھارت کے ساتھ تعلقات پر بھی سبھی جماتیں مسلم لیگ ن کی ہم نوا ہیںا ور اب تو فوج کے ایک ا علی کمانڈر نے بھی کہہ دیا ہے کہ بھارت دشمنی چھوڑے اور سی پیک کا حصہ بن کر تجارتی ثمرات سے بہرہ مند ہو۔
ایک مسئلہ ایساضرور ہے جس نے ھکومت کوپریشان کر رکھا ہے ، وہ ہے پانامہ لیکس ۔ اس پر حکومت کی ابتدائی گھبراہٹ غیر ضروری تھی، کیونکہ پانامہ لیکس میں ایک تو نواز شریف کا اپنانام نہیں تھا، دوسرے اس میں پاکستان کے ہزاروں اور دنیا بھر کے لاکھوں افراد کے نام شامل کئے گئے ہیں ، تیسرے پانامہ لیکس ثبوت نہیں الزامات ہیں، انہیں جب تک کسی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاتا ،، ان کی حیثیت الزامات کی رہے گی ا ور یہ نکتہ اب حکومت کی سمجھ میں آ گیا ہے اور وہ گھبراہٹ سے چھٹکارہ پا کر سکون سے بقایا ٹرم گزارنے کا تہیہ کر چکی ہے، حکومت کے اسی اعتماد نے اسے بلدیاتی اداروںمیں بھاری کامیابی دلوانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
خدا خدا کر کے بلدیاتی اداروں کا ڈھانچہ مکمل ہوا ، اب کرنے کا کام یہ ہے کہ تمام صوبے ان اداروں کو وہ اختیارات دیںجو دنیا بھر کے جمہوری نظام میں مقامی حکومتوں کو حاصل ہیں۔منتخب حکومتوں کو یہ داغ دھونا چاہئے کہ یہ ادارے صرف ایوب خان، ضیا الحق اور مشرف کی فوجی حکومتوں میں ہی اختیارات استعمال کر سکتے ہیں۔موجودہ جمہوری سیٹ اپ کو اگر مکمل شکل اختیار کرنی ہے تو اختیارات کے ارتکاز کو ختم کر کے بلدیاتی حکومتوں کو عوامی ترقی اور بھلائی کے فرائض سونپے جائیں۔یہ کام ہو جائے تو جمہوریت اور مضبوط ہو گی ۔