لاہور (ویب ڈیسک ) جج ارشد ملک کے حوالے سے ویڈیو سکینڈل نے تہلکہ خیز موڑ لے لیا ہے جب کہ اس حوالے سے عدالت عظمیٰ میں موجود پٹیشن بھی منظور ہوگئی ہے جس کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید پر مشتمل 3 رکنی بینچ کرے گا۔ دوسری جانب نواز شریف کو ہونے والی سزا کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا اپیل میں ہوگا۔ پروگرام کے میزبان کے مطابق حکومتی معاملات میں اثر و رسوخ کی حامل شخصیات نے رابطے پر بتایا ہے کہ نواز شریف ،آصف زرداری اور دوسرے سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف نیب میں مزید کیسز بن رہے ہیں اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے کچھ نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن کا تعلق نوازشریف اور مریم نواز سے ہے، نیب اور حکومتی مشینری پرعزم ہے کہ نواز شریف اور زرداری کے معاملات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ویڈیو سکینڈل کے حوالے سے ماہر قانون بیرسٹر سعد رسول نے کہا ہے جج ارشد ملک کے رویہ سے ثابت ہوگیا ہے کہ وہ اپنے منصب کے لائق نہیں تھے، ان کے ذاتی کنڈکٹ سے قطع نظر اپیل میں عدالت عالیہ کے پاس پورا اختیار ہے کہ تمام شواہد دوبارہ دیکھے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے تین آپشنز ہوں گے۔ اگر مریم نواز کی ویڈیو فرانزک میں درست ثابت نہیں ہوتی تو اپیل میں فیصلہ برقرار رکھا جاسکتا ہے، اگر ویڈیو درست تھی اور فیصلہ کسی دباؤ کے تحت دیا گیا ہے تو ہائیکورٹ جج ارشد ملک کا فیصلہ کالعدم قرار دے سکتی ہے اور ہدایت کرسکتی ہے کہ کوئی نئی عدالت کیس کی از سر نو سماعت کرے، تیسرا آپشن یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ خود ہی تمام شواہد کو پھر سے دیکھنے کا فیصلہ کرے اور نواز شریف کے وکلا سے کہے کہ ہمیں اپنی منی ٹریل دکھا دیں اور نیب سے کہے اپنے شواہد دکھا دیں ، ہم فیصلہ کردیتے ہیں۔ ممتاز تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا سوال یہ ہے کہ کیا جج ارشد ملک پر دباؤ کچھ اداروں کی طرف سے تھا یا نواز شریف سے تعلق رکھنے والے مشکوک افراد کا دباؤ تھا، ن لیگ کو زیادہ عوامی حمایت ملتی نظر آتی ہے نہ ہی بڑا سیاسی طوفان پیدا ہو رہا ہے۔