لاہور (ویب ڈیسک) باقی حلقوں کے بارے میں تو میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا مگر صوبائی حلقہ پی پی 222 ملتان بارہ‘ جو تحصیل جلالپور پیروالہ اور شجاعباد پر مشتمل ہے‘ میں ہارنے کے لیے پی ٹی آئی نے بڑی محنت کی۔ ان کی محنت رنگ لائی اور جنرل الیکشن میں جیتی جانے والی
نامور کالم نگار خالد مسعود خان روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ سیٹ پی ٹی آئی بڑے دھوم دھڑکے سے ہار گئی۔ اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔ یہاں سے ملک غلام عباس کھاکھی بڑے مارجن سے یعنی تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار ووٹوں سے جیتے تھے ۔ ملک غلام عباس کھاکھی مرحوم نے 47429 اور ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے امیدوار مہدی عباس لنگاہ نے 35983 ووٹ حاصل کیے۔ ملک عباس کھاکھی حلف بھی نہ اٹھا سکا اور اللہ کو پیار ہو گیا۔ اس کی خالی ہونے والی سیٹ پر اس کی بیوہ شازیہ نرگس کھاکھی پی ٹی آئی کی ٹکٹ کی امیدوار تھیں۔ خاندان میں باہمی اختلاف ہوا لیکن بعد ازاں اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ پی ٹی آئی جسے بھی ٹکٹ دے گی ساری برادری اس کی حمایت کرے گی‘ لیکن ہوا یہ کہ پی ٹی آئی نے مرحوم ایم پی اے غلام عباس کھاکھی کی بیوہ یا بھتیجے کو ٹکٹ دینے کے بجائے صوبائی حلقہ پی پی 221 ملتان گیارہ‘ سے ہارنے والے اپنے امیدوار رانا سہیل احمد نون کو حلقہ پی پی 222 سے ٹکٹ دے دیا۔ تب علاقے کے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پارٹی قیادت کو اس ٹکٹ بارے اپنے تحفظات سے آگاہ بھی کیا لیکن پارٹی قیادت نے حسب عادت من مانی کی۔
قائدین کو گمان بھی نہ تھا کہ صرف ستاون دن میں حالات اتنے تبدیل ہو سکتے ہیں۔ زمینی حقائق سے قطعاً نابلد لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے سیاسی بزرجمہروں نے علاقے کی سیاست کو سمجھنے والے مخلص دوستوں کے مشوروں اور تجاویز کو جوتے کی نوک پر لکھا اور انتہائی غیر مقبول فیصلہ صادر فرما دیا۔ یہ ٹکٹ دراصل حلقہ این اے 159 ملتان چھ سے منتخب ایم این اے رانا قاسم نون نے دھکے سے اپنے بڑے بھائی رانا سہیل احمد نون کے لیے حاصل کر لیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ رانا قاسم نون کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ انہوں نے نا صرف جنرل الیکشن میں خود این اے 159 کا ٹکٹ حاصل کر لیا‘ بلکہ حلقہ پی پی 221 سے اپنے بھائی رانا سہیل احمد نون کے لیے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بھی مار لیا۔ رانا قاسم نون اسی حلقہ سے 2016ء کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو بڑا تاریخی قسم کا غچہ دے چکے تھے۔ اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کا منتخب ایم این اے دیوان عاشق نااہل ہوا تو 2016ء میں ضمنی الیکشن ہوا۔ بندہ گھیرنے میں ید طولیٰ رکھنے والے جہانگیر ترین نے 2013ء کے الیکشن میں اسی حلقہ سے (تب یہ حلقہ این اے 153 تھا) دیوان عاشق بخاری سے شکست کھانے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار رانا قاسم نون کو گھیر لیا
اور ہانک کر لاہور لے جا رہے تھے کہ رانا قاسم نون نے عین وقت پر فیصلہ تبدیل کر لیا‘ اور زمان پارک جاتے جاتے ماڈل ٹاؤن پہنچ گئے۔ رانا قاسم نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر 88593 ووٹ حاصل کئے اور دیوان عاشق بخاری سے محض پانچ ہزار سات سو پانچ ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ تب پی ٹی آئی کے ایک ذمہ دار نے غصے میں دانت کچکچاتے ہوئے کہا تھا کہ اس رانا قاسم کو اگلے ایک سو سال تک پی ٹی آئی میں نہ شامل ہونے دیا جائے گا اور نہ ہی کبھی ٹکٹ دیا جائے گا۔ اس نے ہمیں عین وقت پر دھوکہ دیا ہے۔ تب اس ضمنی الیکشن میں ملک عباس کھاکھی پی ٹی آئی کا امیدوار تھا۔ جب پی ٹی آئی کا زور آیا اور جنوبی پنجاب میں خاص طور پر پی ٹی آئی کی صورتحال بہت ہی بہتر ہو گئی تب اس قومی حلقے کی ٹکٹ پی ٹی آئی کے مفرور امیدوار رانا قاسم نے مار لی۔ ملک عباس کھاکھی کو بمشکل صوبائی ٹکٹ ملی؛ تاہم اس نے اپنی صوبائی سیٹ اچھے خاصے مارجن سے جیت لی۔ ضمنی الیکشن میں سب لوگوں نے کہا کہ اس سیٹ پر کھاکھی مرحوم کے گھرانے سے کسی کو ٹکٹ دے دی جائے مگر اپنے قومی اسمبلی کے حلقے کو مزید مضبوط کرنے کی
خواہش میں مبتلا رکن قومی اسمبلی رانا قاسم نون نے اس سیٹ پر بھی اپنے سگے بھائی کو پی ٹی آئی کی ٹکٹ لے دی۔ اگر پی ٹی آئی ملک غلام عباس کھاکھی کی بیوہ شازیہ کھاکھی کو ٹکٹ دے دیتی تو یہ سیٹ ایک بہت بڑے مارجن سے جیتی جا سکتی تھی۔ اس ضمنی الیکشن میں جیتنے والے امیدوار قاسم خان لنگاہ نے اڑتیس ہزار سے زائد ووٹ لیے۔ وہ آزاد امیدوار تھا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار رانا سہیل نون نے بتیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ لیے اور آزاد امیدوار شازیہ کھاکھی نے تیئس ہزار سے زائد ووٹ لیے۔ یعنی شازیہ کھاکھی اور پی ٹی آئی کے امیدوار نے مجموعی طور پر پچپن ہزار ووٹ لیے اور جیتنے والے آزاد امیدوار نے اڑتیس ہزار ووٹ لئے۔ غلام عباس کھاکھی کی وفات کے بعد حلقہ میں پی ٹی آئی اور اس کے مرحوم ایم پی اے کے لیے شدید ہمدردی کے جذبات تھے اور وسائل کی کمی کے باوجود شازیہ کھاکھی اور اس کے بارہ سالہ بیٹے نے یہ الیکشن مہم بڑے مؤثر انداز میں چلائی۔ سارے حلقے میں دوسرے حلقے سے ہارے ہوئے امیدوار کو امپورٹ کرنے کے خلاف بڑی شدت سے منفی جذبات ابھرے اور آزاد امیدوار قاسم عباس خان لنگاہ جیت گیا۔ جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی سے شکست کھانے والا مسلم لیگ ن کا امیدوار مہدی عباس لنگاہ‘ قاسم لنگاہ کا چھوٹا بھائی ہے۔
لنگاہ خاندان اور دیوان اینڈ کمپنی نے اس بار اپنا صوبائی امیدوار بدل لیا اور مہدی عباس کے بجائے اس کے بڑے بھائی قاسم خان لنگاہ کو اپنا امیدوار بنا لیا۔ پی آئی اے سے چند سال قبل ریٹائر ہونے والا قاسم خان لنگاہ اپنے چھوٹے بھائی کی نسبت کہیں زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ اور علاقائی برادریوں سے معاملات سلجھانے کا ماہر ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ اس حلقہ سے دوبارہ منتخب ہونے والے مہدی عباس لنگاہ کی نسبت بہتر امیدوار ہے اور مستقبل میں اس حلقے میں اپنے خاندانی اثر و رسوخ، ذاتی تعلقات‘ کہیں بہتر شخصیت‘ مقابلتاً بہت زیادہ Presentable، خوش وضع اور قابل نظر ہونے کے باعث مخالف امیدواروں کے لیے باقاعدہ لوہے کا چنا ثابت ہو سکتا ہے۔ رانا قاسم نون نے حلقہ کو اپنے لیے آسان بنانے کی غرض سے اپنے بڑے بھائی کو اپنے مستقل ونگ کے طور پر حلقہ پی پی 221 سے اٹھا کر اپنے نیچے والے حلقہ پی پی 222 میں لانے کی جو کوشش کی‘ وہ قاسم نون کو بہت مہنگی پڑی اور اس کے طفیل حلقہ پی پی 222 میں مہدی لنگاہ کی جگہ قاسم لنگاہ کی صورت جو نئی شخصیت آئی ہے وہ رانا قاسم کے لیے مستقبل میں ایک مصیبت بن جائے گی کہ اس کا براہ راست اثر قومی اسمبلی کی نشست حلقہ این اے 159 پر پڑے گا۔
اس حلقہ کے نیچے صوبائی اسمبلی کے دو حلقے پی پی 222 اور پی پی 223 ہیں۔ پی پی 222 میں قاسم لنگاہ ایک بڑے مارجن سے جیت کر آیا ہے‘ دوسری طرف پی پی 223 میں مسلم لیگ ن کی نغمہ مشتاق لانگ پورے ملتان کی بارہ صوبائی نشستوں میں سے مسلم لیگ ن کے جیتنے والے چار ارکان اسمبلی میں شامل ہے۔ قاسم لنگاہ کی سیاست میں آمد اور پہلے ہی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طورپر جیتنے کے بعد حلقہ این اے 159 کی سیاست اب قاسم نون کیلئے اتنی بہتر نہیں رہے گی جتنی پہلے تھی اور وہ دیوان عاشق سے ہمیشہ دو اڑھائی ووٹوں کے کلوز مارجن سے ہارتا تھا۔ اب اس حلقے میں صورتحال قطعاً تبدیل ہو جائے گی اور این اے 159کے نیچے پی پی 222میں دیوان گروپ کو اتنی ہی مضبوطی حاصل ہو جائے گی جتنی نغمہ مشتاق والے حلقے میں ہے۔ حلقہ پی پی 222کا یہ الیکشن بڑا مزیدار تھا۔ میں نے الیکشن سے چند روز قبل ایک مقامی ٹی وی چینل پر کہا کہ اس حلقے میں پی ٹی آئی کا امیدوار ہار بھی گیا تو یہ سیٹ پی ٹی آئی کی رہے گی کہ دونوں آزاد امیدواروں میں سے کوئی بھی جیت گیا‘ پی ٹی آئی میں آ جائے گا اور میرا اب بھی یہی مؤقف ہے۔ حالانکہ ایک خبر کے مطابق مسلم لیگ کی قیادت نے مقامی مسلم لیگی قیادت کو قاسم لنگاہ کو مسلم لیگ ن میں لانے کا ٹاسک دیا ہے‘ مگر یہ کاوشیں لاحاصل رہیں گی۔ قاسم لنگاہ، نغمہ مشتاق اور دیوان عاشق بخاری کا بیٹا (دیوان عاشق خود تا عمر نااہل قرار پا چکا ہے) اگلا الیکشن کس پارٹی سے لڑتے ہیں یہ کہنا مشکل ہے کہ شجاعباد اور جلالپور پیروالہ کی سیاست بارے کچھ کہنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بارے کچھ کہنا۔