گزشتہ دنوں راقم کی ہارورڈ جرنلزم کی کلاس میں ایکسپریس ٹریبیون پاکستان کے ایک آرٹیکل پر بحث چھڑ گئی۔ ہوا یوں کہ ایک کلاس فیلو نے مذکورہ اخبار کا ایک آرٹیکل آن لائن ڈسکشن بورڈ پر شیئر کیا جس کے مطابق بلوچستان میں خواتین صحافیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے؛ اور جو ہے وہ بھی مقامی نہیں بلکہ پاکستان کے دوسرے خطوں سے ہے۔ جب تک راقم کی نظر ڈسکشن بورڈ پر پڑی، کلاس کے دوسرے اسٹوڈنٹس پاکستان میں خواتین کے حقوق کی ناگفتہ بہ حالت پر شدید ترس کھا چکے تھے۔ مغرب اور امریکا میں نیوز اور پاپ میڈیا عموماً مسلمان خواتین کا ایک مخصوص امیج پیش کرتے ہیں اور تعلیم یافتہ طبقہ بھی بغیر پوری معلومات کے من و عن اپنی رائے کو اس امیج کے مطابق ڈھال لیتا ہے، مستثنیات موجود ہیں مگر بہت کم۔
ہارورڈ کے روایتی ماحول میں راقم کی کوشش رہتی ہے کہ ہونٹوں کو ایک دوسرے سے چپکا کر رکھا جائے تاکہ یہ کم سے کم حرکت کریں کیونکہ بصورت دیگر کچھ وہم سا ہوتا ہے کہ ان کی حرکت کے نتیجے میں گریڈز پر برا اثر نہ پڑجائے۔
مگر کیا کیجیے کہ اپنی بے لاگ رائے دینے کی جو عادت بچپن سے رہی ہے وہ ہر جگہ خوار کروا کر ہی چھوڑتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستانی عورت پر ترس بھری جو نظر ڈالی گئی اور کوئٹہ کی عورتوں کی صحافت میں نمائندگی نہ ہونے پر (جو اعداد و شمار کے مطابق کسی حد تک صحیح بھی ہے) ہم خاموش نہ رہ سکے۔ ایک کلاس فیلو کا تبصرہ تھا:
بہت اہم مضمون اس طرح ایک معاشرہ میں بیدار ہونا ضروری ہے، جہاں بھی تعلیم یافتہ لوگوں کو – اور پوری میڈیا خود کو قائم رکھنا چاہئے – خواتین کے حقوق جیسے موضوعات سے بچنے کے لئے؟ اور کیا کرنے والا ہے
بات بظاہر معقول تھی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں مقامی خواتین کی صحافت جیسے انتہائی اہم شعبے میں نمائندگی نہ ہونا اہل عقد کےلیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ لیکن میں نہ تو ایکسپریس کے اس آرٹیکل کی منطق سے مطمئن تھی اور نہ ہی ان ترس بھرے تبصروں سے۔ میرا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں سے ایک ہے اور اس وقت وہاں امن عامّہ کی صورت حال بھی اپنوں کی لاپرواہی اور غیروں کی دراندازی کی وجہ سے بہت دگرگوں ہے۔ وہاں صحافت جیسے پیشے میں، جہاں مردوں کو بھی جان کا خطرہ لاحق ہوتا ہے، عورتوں کو جان کے علاوہ دوسرے خطرات بھی ہوسکتے ہیں۔ پھر بلوچوں کی اپنی ایک روایتی ثقافت ہے اور عموماً پاکستانی مرد اور خاندان اپنی عورتوں کی حفاظت کےلیے زیادہ حساس ہوتے ہیں؛ اس لیے اس معاملے کے بہت سے پہلو ہیں۔ محض صحافت کے شعبے میں نمائندگی نہ ہونے سے وہاں انسانی حقوق یا خواتین پر کیے جانے والے مظالم کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
دوسرا اگر گھر اور بچے یا ملازمت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو زیادہ تر پاکستانی خواتین گھر والوں کے دباؤ کے بغیر بھی گھر اور بچوں کا انتخاب ہی کرتی ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں خواتین ڈاکٹرز، انجینئرز، وکیل اور صحافی کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کا معاوضہ بھی امریکا کے برعکس ساتھ کام کرنے والے مردوں کے برابر ہوتا ہے۔
اس پر ایک کلاس فیلو کا کہنا تھا کہ امریکا میں بھی عورتوں کو برابر کے حقوق نہیں ملے ہوئے لیکن یہاں حالات اتنے خراب نہیں۔ اس نے ہارورڈ میں گزشتہ ہفتے دیئے گئے ایک لیکچر کا تذکرہ کیا کہ این کومپٹن (لیکچر دینے والی خاتون صحافی) کم از کم پچاس سال سے وائٹ ہاؤس میں خبروں کی کوریج کر رہی ہیں۔
میرا جواب تھا کہ یقیناً مذکورہ صحافی خاتون پچاس سال سے وائٹ ہاؤس کور کر رہی ہیں مگر وائٹ ہاؤس نے کبھی کوئی خاتون امریکی صدر نہیں دیکھی، جبکہ پاکستانی عوام نے دو مرتبہ ایک خاتون کو باقاعدہ الیکشن کے ذریعے اپنا سربراہ منتخب کیا ہے۔
امریکا کی چار سو سالہ تاریخ میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں گزری مگر تاریخ شاہد ہے کہ قدیم زمانوں سے ہی دنیا کے بیشتر خطوں میں، جن میں آج مشرق وسطیٰ کہلانے والا خطہ سرفہرست ہے، بیشمار عورتوں نے اپنے ملکوں پر کامیاب حکمرانی کی۔ ان میں یمن کی ملکہ سبا سے (جن کا تذکرہ آسمانی صحیفوں میں موجود ہے) ہم سب واقف ہیں۔ مصر کی قلوپطرہ اور مصر پر بیس سال حکمرانی کرنے والی خاتون فرعون ہیشپسوت کے علاوہ بیشمار مسلمان خواتین بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ لیکن مسلمان خود اورمغربی پاپولر میڈیا عموماً ان کا تذکرہ نہیں کرتا۔ ہندوستان کی رضیہ سلطانہ کے علاوہ (جسے اس کے باپ نے بیٹوں کے ہوتے ہوئے اپنا ولی عہد بنایا)، ہندوستان کے صوبے مدھیہ پردیش کی ریاست بھوپال پر سو سال سے زیادہ مسلسل چار خواتین کی کامیاب حکومت رہی۔ مملوک مصر پر بھی ایک ملکہ نے نہ صرف حکومت کی بلکہ اپنے دور حکومت میں صلیبیوں کو شکست بھی دی۔ جہانگیر کے ہندوستان پر بھی حکومت درحقیقت نورجہاں ہی کررہی تھی۔
یہ چند مثالیں ہیں۔ یہاں ہمارا مقصد مسلم حکمران خواتین کی کوئی فہرست مرتب کرنا نہیں۔ مگر آج کا مسلمان نہ صرف اپنے اس ماضی کا تذکرہ کرنے سے گریزاں ہے بلکہ اگر کبھی عورت کی حکمرانی، سیاست یا علم و ادب کی ترویج میں اس کے کردار کا ذکر آئے تو بات منفی تجزیوں سے آگے نہیں بڑھتی۔
یہاں آنحضرتﷺ کی بعثت سے بھی ہزاروں سال پہلے گزرنے والی ایک خاتون کا ذکر ابھی باقی ہے۔ جی ہاں! حضرت حاجرہ رضی الله تعالیٰ عنہ کا کردار اور اسوہ کو دنیا کے ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کےلیے قابل تقلید قرار دیا گیا۔ ان کے نقش قدم پر چلنا ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض قرار دے دیا گیا۔ ان کے قصے میں بھی میرے نبیﷺ کی امّت کےلیے بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا الله کے حکم سے انہیں شیرخوار بچے کے ساتھ مکہ کے تپتے ہوئے ریگزار میں بغیر مادی وسائل کے چھوڑنا، الله کا اس اکیلی عورت کی غیب سے مدد کرنا، جرہم قبیلے کے لوگوں کا وہاں سے گزرنا اور وہاں آباد ہونے کی اجازت طلب کرنا۔ حضرت حاجرہ کا لیڈرشپ اور سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس شرط پر اجازت دینا کہ زمزم کے پانی کی مالک وہی ہوں گی۔ کیا یہ خواتین کی سیاست میں شرکت کی تاریخ کی اولین مثال نہیں؟
اسی طرح ہارون رشید کی والدہ خیزران خود حکمران نہیں تھیں مگر اپنے شوہر اوردو بیٹوں کے دور میں انہوں نے درپردہ ایک سپر پاور پر حکومت کی۔ ان کا شوہر مہدی اور بیٹا ہارون ان کے مشورے کے بغیر سلطنت کا کوئی اہم فیصلہ نہ کرتے۔ ایسا وہ علی الاعلان کرتے اور اس میں کوئی شرم بھی محسوس نہ کرتے۔
خیزران کے نام پر محل تعمیر ہوئے، سکّے ڈھلوائے گئے، خاندان عباسیہ کے مرد جس قبرستان میں دفن ہوتے اس کا نام خیزران کے نام پر رکھا گیا۔ مگر یہ مسلمانوں کے سنہرے دور کی یادیں ہیں جب وہ علم و حکمت کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی تعظیم دیا کرتے تھے۔ آج مسلمان دانشور ہارون رشید کے بغداد کا تذکرہ تو بہت کرتے ہیں مگر شاید ہی کوئی اس کی والدہ سے وا قف ہو جو ایک کنیز کے طور پر محل میں لائی گئیں اورعلم و حکمت سے محبّت نے ان سے اقتدار کی سیڑھیاں طے کروائیں اور مسلم قوم کو ایسے بیٹے دیئے جن پر وہ آج بھی فخر کرتی ہے۔ عجب نہیں کہ جو قوم خیزران جیسی ماں کو بھول جائے، جہالت اور پسماندگی اسکا مقدر بن جائے۔
بات یہ ہے کہ جب ہم مسلمان خود ہی اپنے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے یا کم از کم اس کا تذکرہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تو امریکیوں سے کیا شکوہ کریں؟ عورتوں کے حقوق کے لحاظ سے مغرب کے حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں مگر اس بحث سے قطع نظر (جس سے میں نے خاصا لطف اٹھایا) میں سنجیدگی سے سمجھتی ہوں کہ ہم پاکستانیوں کو خواتین کے حقوق کے لحاظ سے اور معاشرے میں ان کی حثیت کے حوالے سے مکالمہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔