کراچی ; شہباز شریف وزیراعظم نہیں بنے تو مرکز میں اپوزیشن لیڈر کے بجائے وزیراعلیٰ پنجاب بننا پسند کریں گے، شہباز شریف وزیراعظم بننے کیلئے ضرورت سے زیادہ پراعتماد نظر آرہے ہیں، عمران خان پراعتماد نظر نہیں آرہے بلکہ کچھ پریشان ہیں، معلق پارلیمنٹ آئی تو سیاسی استحکام کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے،
الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے کی ضرورت ہے جس نے نتائج نہیں مانے وہ 1971ء کی تاریخ دہرائے گا،عمران خان وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں انہیں خدشہ ہے کہ کہیں جیپ کا تڑکا زیادہ نہ لگ جائے اور بطور وزیراعظم ان کی خودمختاری کو نقصان نہ پہنچے، عمران خان کو پریشانی ہے اس دفعہ وزیراعظم نہیں بنے تو باقی زندگی پاک پتن کے مزار پر گزارنی ہوگی، الیکشن کے بعد استحکام کے بجائے سیاسی انتشار بڑھتا نظر آرہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار حامد میر، سہیل وڑائچ، بابر ستار، حفیظ اللہ نیازی، سلیم صافی اور ارشاد بھٹی نے الیکشن نشریات میں میزبان شاہزیب خانزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سینئر تجزیہ کار حامد میر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف انتخابی مہم میں ووٹرز میں جو ش و خروش دیکھتے ہوئے خود کوآئندہ وزیراعظم دیکھتے ہیں، شہباز شریف مرکز کے ساتھ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کیلئے بھی پراعتماد ہیں،شہباز شریف کے دعوؤں کی بنیاد جلسوں میں آنے والے سپورٹرز ہیں۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا سے متعلق سرویز سے اتفاق نہیں کرتا ہوں، خیبرپختونخوا کے کچھ علاقوں میں تحریک انصاف آسانی سے جیتتی نظر نہیں آرہی ہے، نواز شریف کے استقبال کیلئے سب سے بڑا جلوس خیبرپختونخوا سے آیا تھا،
شہباز شریف مرکز میں اپوزیشن لیڈر بننے کے بجائے وزیراعلیٰ پنجاب بننا پسند کریں گے، الیکشن کے بعد ن لیگ میں فارورڈ بلاک بننے کا شہباز شریف کو بھی پتا ہے۔حامد میر نے کہا کہ عمران خان پراعتماد نظر نہیں آرہے بلکہ کچھ پریشان ہیں، عمران خان جھنگ اور جہلم کے جلسوں میں کم حاضری اور لاہور میں بلاول کے جلسے میں بڑے مجمع کی وجہ سے خوفزدہ ہیں، عمران خان جانتے ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کا ووٹر دراصل پیپلز پارٹی کا ووٹر ہے ،انہیں خطرہ ہے کہ بلاول کی مہم کی وجہ سے پی ٹی آئی میں موجود پیپلز پارٹی کا ووٹر واپس نہ چلا جائے۔حامد میر نے بتایا کہ ترک صدر طیب اردوان شہباز شریف کو بار بار فون کر کے گائیڈنس دے رہے ہیں، انہوں نے کل اور آج شہباز شریف کو فون کیا اور یہ ٹیلیفون کالز لیک بھی ہورہی ہیں۔حامد میر کا کہنا تھا کہ پچیس جولائی کو الیکشن ہونا پاکستانیوں کی بڑی کامیابی ہے ، الیکشن کو موخر کرنے کی بہت کوششیں ہوئی ہیں، ووٹنگ کی شرح پچاس فیصد سے اوپر چلی گئی تو غیرمتوقع نتائج آئیں گے، ووٹر کسی ایک جماعت کو اکثریت دیں گے تو پاکستان میں استحکام آئے گا،اگر معلق پارلیمنٹ آئی تو سیاسی استحکام کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے،
الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے کی ضرورت ہے جس نے نتائج نہیں مانے وہ 1971ء کی تاریخ دہرائے گا۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ سینٹرل پنجاب میں ن لیگ اکثریت حاصل کرے گی مگر مرکز اور پنجاب میں حکومت نہیں بناسکے گی، ایک بھائی جیل میں ہو تو دوسرے بھائی کا وزیراعلیٰ پنجاب ہونا منطق کے خلاف ہے، ن لیگ نے اکثریت حاصل کر بھی لی تو پارٹی میں فارورڈ بلاک بن جائے گا جو پنجاب میں حکومت بنائے گا، عمران خان جنوبی پنجاب، بلوچستان، کراچی، فاٹا اور خیبرپختونخوا سے نشستیں حاصل کر کے مرکز میں حکومت بنائیں گے، شہباز شریف کو مرکز میں اپوزیشن لیڈر یا وزارت اعلیٰ میں سے انتخاب کرنا پڑا تو وہ وزیراعلیٰ پنجاب بننے کو ترجیح دیں گے۔سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ عمران خان وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں اور اپنی کابینہ بنارہے ہیں، عمران خان پریشان ہیں کہ کہیں جیپ کا تڑکا زیادہ نہ لگ جائے اور بطور وزیراعظم ان کی خودمختاری کو نقصان نہ پہنچے، پچیس جولائی کے انتخابات مسائل حل کرنے کے بجائے مزید مسائل پیدا کریں گے، انتخابات کے بعد کمزور وفاقی حکومت بنے گی جبکہ چاروں صوبوں میں مختلف رجحان نظر آئے گا۔ارشاد بھٹی نے کہا کہ عمران خان اور شہباز شریف دونوں نے بہت دفعہ شیروانیاں پہنی ہیں، شہباز شریف الیکشن میں پنجاب بچا گئے تو یہ ان کی بہت بڑی فتح ہوگی، شہباز شریف پنجاب بچا گئے تو وزیراعلیٰ پنجاب بننا چاہیں گے، عمران خان پریشا ن نظر نہیں آرہے ہیں، جلسوں سے انتخابات میں کامیابی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، انتخابات میں ن لیگ اورپی ٹی آئی میں اچھا مقابلہ ہوگا۔