نائن الیون کے بعد سے فاٹا دہشتگردی اور انسدادِ دہشتگردی کے دو پاٹوں میں جس طرح مسلسل پس رہا ہے اس کا اندازہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا قبائلی علاقہ جہاں جنگ سے قبل بھی صحت کی عوامی سہولیات اونٹ کے منہ میں زیرہ تھیں۔پچھلے سولہ برس کے دوران وہاں پونے دو سو کے لگ بھگ طبی سہولتیں تباہ یا ویران ہوچکی ہیں۔ تازہ ستم کرم ایجنسی میں ہوا ہے جہاں اسی ماہ بی بی سی کی ویب سائٹ پر شایع ایک مضمون کے مطابق صدہ کے علاقے میں بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم ایم ایس ایف کے تحت چلنے والا خیراتی اسپتال اس جواز پر بند کر دیا گیا کہ اس حساس علاقے میں غیرملکی این جی اوز کو کام کرنے کی اجازت نہیں۔
پاکستان میں ریاست سے عام شہری تک ہر کوئی نوحہ گر ہے کہ ملک کو دہشتگردی کے علاوہ تین بنیادی مسائل درپیش ہیں۔یعنی ناکافی طبی، تعلیمی اور رہائشی سہولتیں۔ بجائے ان بنیادی سہولتوںکے پھیلاؤ پر ترجیحی توجہ دی جائے جو سہولتیں پہلے سے موجود ہیں انھیں بھی لالچ اور ملی بھگت کے ہتھیاروں سے موجودہ اور اگلی نسل سے چھینا جا رہا ہے۔
آپ کسی بھی قصبے یا شہر میں چلے جائیں اور لوگوں کو ذرا سا بھی کریدیں۔دو جملے آپ کو کسی نہ کسی کی زبان سے ضرور گر پڑیں گے۔لینڈ اینڈ ڈویلپرز مافیااورسرکاری اداروں، سیاستدانوں اور قانون کی ملی بھگت۔آپ ان قصبوں سے باہر نکل کے دیکھیں گے کہ سونا اگلتی زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بدل رہی ہیں اور قابلِ کاشت رقبہ بڑھنے کے بجائے گھٹ رہا ہے۔
مگر ہر برس ہزاروں ایکڑ زرعی زمین نئے مکانوں میں غائب ہونے کے باوجود عام آدمی کے لیے رہائشی بحران جوں کا توں ہے۔ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹ لینا یا گھر بنانا عام آدمی کی اوقات سے دن بدن باہر ہے۔ جب سستی زرعی زمین اونے پونے یا زور زبردستی سے حاصل کر کے اسے ایک ہزار فیصد منافع پر باآسانی بیچا جا سکتا ہو اور ہاتھ پاؤں مارنے والوں کو عدالتی اسٹے کے ڈنڈے سے روکا جا سکتا ہو تو کسے پڑی کہ غریبوں کے لیے سستی ہاؤسنگ اسکیموں کے متروک سرکاری چلن کو پھر سے زندہ کرنے کا سوچے۔
ملک کے طول و عرض میں سیکڑوں بکھری پڑی کہانیاں گواہ ہیں کہ جو قبضہ گیروں سے ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا۔بھلے وہ موقع کا خالی پلاٹ ہو ، عبادت گاہ ہو، اسپتال ہو کہ اسکول یا کھیل کا میدان کہ پارک یا پورے پورے گاؤں گوٹھ۔
اب سے دس برس پہلے تک کراچی کے کلفٹن ایریا میں ایک پرائیویٹ اسپتال تھا مڈایسٹ کے نام سے۔پھر ایک دن مالک نے یہ اسپتال ایک ڈیولپر کو بیچ دیا اور آج وہاں اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ شاپنگ مال کھڑا ہے۔حالانکہ اس کیس میں کسی نے کسی کی زمین پر کوئی قبضہ نہیں کیا۔بس ایک نجی زمین نے اپنی ملکیت بدلی۔مگر آپ نے کتنے مہذب معاشروں میں یہ سنا ہو گا کہ ایک چلتے اسپتال کو ختم کر کے اسے کمرشل مال میں بدل دیا جائے۔
پارٹیشن کے وقت اسی کراچی میں ساڑھے سات سو چھوٹے بڑے ہندو مندر بتائے جاتے تھے اور سیکڑوں ایکڑ فلاحی زمین پنجرہ پور ہندو ٹرسٹ کے نام پر تھی۔آج کراچی میں بمشکل بیس مندر زندہ ہیں باقی کمرشل وھیل مچھلیاں کھا گئیں۔پنجرہ پور ٹرسٹ کی سیکڑوں ایکڑ زمین کا یہ ہوا کہ اب پنجرہ پور کا بس پنجر باقی ہے۔
جہاں تک مسیحی املاک کا معاملہ ہے تو کراچی میں قبل از تقسیم کھیلوں اور تعلیمی مقاصد کے نام پر ینگ مینز کرسچن ایسوسی ایشن (وائی ایم سی اے) کو شہر کے بیچوں بیچ کئی ایکڑ الاٹ ہوئے تھے۔ان میں سے اب تک آدھا رقبہ میرج گراؤنڈ اور پارکنگ لاٹ تلے آ چکا ہے اور جو گراؤنڈ باقی ہے اس میں کبھی کبھی بھوت پریت سے نجات پانے کے خواہش مند عقیدت مند مسیحوں کا اجتماع ہوجاتا ہے۔مگر زمین ہڑپ کرنے والوں کا بھوت جنتر منتر سے تو بھاگنے سے رہا۔
حتی کہ اٹھارہ سو اڑسٹھ سے صدر میں قائم عظیم الشان سینٹ اینڈریوز چرچ کو بھی اپنی دیواروں پر یہ انتباہ لکھنا پڑ گیا ہے کہ ’’ یہ زمین چرچ کی ملکیت ہے اور قابلِ فروخت نہیں‘‘۔
خوش قسمت ہیں وہ کھیل کے میدان اور پارک جو اب تک کسی نہ کسی طور کسی کی نظرِ بد سے محفوظ ہیں۔شہر کی سیاسی کمیسٹری میں تبدیلی کے سبب کچھ بچے ہوئے پارکوں، گرین بیلٹس اور برساتی نالوں کی جان میں جان آئی ہے کہ جو چائنا کٹنگ کی چھری تلے آنے سے فی الحال بچ گئے ہیں۔
کھیل کے میدان کے لیے مختص زمین کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کے لیے میکرو حبیب کیس کافی ہے۔ہوا یوں کہ مشرف حکومت نے آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کو تقریباً پانچ ایکڑ کا فلاحی پلاٹ چھ ہزار روپے سالانہ کرائے پر نوے برس کے لیے الاٹ کر دیا۔ٹرسٹ نے دو ہزار چھ میں یہ زمین معقول کرائے پر میکرو حبیب کو ایک سپر اسٹور قائم کرنے کے لیے تھما دی۔یہ قصہ اردشیر کاوس جی نے اپنے کالم میں بیان کر دیا۔سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس زمین کی لیز منسوخ کر کے سٹی گورنمنٹ کو لوٹا دی۔
فی زمانہ زمین پر قبضے کے لیے سب سے گھمسان کا رن ڈسٹرکٹ ملیر اور گڈاپ ٹاؤن میں ہے۔ایک جانب پشتینی دیہاتی ہیں اور دوسری جانب پولیس اور اس کی ڈوریں ہلانے والے، موم کی ناک جیسے ناقص ملکیتی قوانین اور بے پناہ رسوخی طاقت سے مسلح بلڈرز کہ جن کے سامنے اہلِ سیاست بھی چھوٹے پڑ جائیں۔
لیکن وہ جو مراٹھی میں کہتے ہیں کہ ریچھ کو بالوں کی کیا کمی۔جوں جوں شہر کے اندر کی زمین قیمتی تر ہوتی جا رہی ہے توں توں بھلے وقتوںمیں بننے والے سرکاری و نجی اسکولوں کی بھی شامت آ رہی ہے۔بہادر آباد کے علاقے میں مقبولِ عام گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول میں تندور لگ گئے۔شاہ فیصل کالونی کے آصف بوائز پرائمری اسکول اور گرین ٹاؤن کے اختر گرلز سیکنڈری اسکول میں کاٹیج انڈسٹری کے کارخانے کھل گئے۔لیاقت آباد کا ایک پرائمری اسکول رہائشی کوارٹرز میں بٹ بٹا گیا۔
ایسا نہیں کہ مزاحمت نہیں۔دو ہزار تیرہ میں فیڈرل بی ایریا بلاک چھ میں منیبہ میموریل اسکول کو ایک دن تالا لگ گیا۔پتہ چلا کہ ایک سابق سیکریٹری تعلیم کے اسکول بند کرنے کے دو برس پرانے نوٹیفکیشن کی بنیاد پر علاقے کے اے ڈی او نے یہ اسکول کسی شادی ہال قائم کرنے کے خواہش مند کو دان کردیا۔
راتوں رات اسکول کا فرنیچر اور کھڑکیاں دروازے اکھاڑ لیے گئے۔طلبا اور اساتذہ نے فٹ پاتھ پر کلاسیں لگا لیں۔سول سوسائٹی ساتھ کھڑی ہو گئی۔ نوٹیفکیشن منسوخ کرنا پڑا اور اسکول پھر سے بحال ہوگیا۔ مگر جس اے ڈی او نے پولیس سے تالہ لگوایا تھا وہ بھی کچھ عرصے بعد بحال ہوگیا۔ اس بیچ ایم کیو ایم تماشائی بنی رہی حالانکہ یہ علاقہ اس کا گڑھ تھا۔
اس برس اپریل میں سولجر بازار کے علاقے میں نوے برس پرانے جوفل ہرسٹ ٹرسٹ اسکول پر لینڈ مافیا نے بلڈوزروں اور مزدوروں کے ساتھ حملہ کیا اور ایک ہی رات میں اسکول کا ایک حصہ یہ کہہ کر گرا دیا کہ یہ رقبہ اب فلانے کے نام منتقل ہوگیا ہے ( خالانکہ یہ اسکول تاریخی میراث کی فہرست میں شامل ہے )۔علاقہ پولیس نے اس واردات کے دوران معصومیت کی چادر اوڑھ لی۔میڈیا پر غل ہوا تو وزیرِ اعلی کو حکم دینا پڑا کہ جو حصہ منہدم ہوا ہے اسے پھر سے تعمیر کیا جائے اور خبردار جو کسی نے اس اسکول کو میلی آنکھ سے دیکھا۔
شاہراہِ فیصل پر ساٹھ برس سے قائم عائشہ باوانی اسکول کی دیدہ زیب جڑواں عمارتیں کراچی کی شناخت کا حصہ ہیں۔اس اسکول کو بھٹو حکومت نے قومیا لیا اور کئی برس بعد اس کی نجکاری ہوگئی۔اس وقت بظاہر حکومتِ سندھ اور عائشہ باوانی کی انتظامیہ میں تین سے چار ایکڑ زمین پر مشتمل اس تعلیمی ادارے کے کرائے کا جھگڑا ہے۔جس کے سبب پچھلے دنوں اسکول کو تالہ بھی لگا ، کلاسیں بھی معطل ہوئیں ، عدالت کو بھی بیچ میں کودنا پڑا۔اب کلاسیں تو بحال ہو گئیں۔مگر معاملے کی تہہ میں وہ زمین ہے کہ جس کی کمرشل ویلیو اس وقت اربوں روپے میں ہے۔دیکھئے عائشہ باوانی اسکول کب تک اپنے پاؤں پر کھڑا رہ سکتا ہے۔
یہ کہانی صرف کراچی کی نہیں۔ لالچ اور ملی بھگت کسی ایک جگہ یا کسی ایک کی میراث نہیں یہ تو سانجھی ہوتی ہیں۔ مثلاً لاہور کے مضافاتی بگریان گاؤں کے گورنمنٹ ماڈل اسکول فار بوائز کی مثال لے لیجیے۔ایک روز ایک مقامی کونسلر اور سیاستداں کے پروردہ مسلح لوگ آئے اور اسکول کے بیچوں بیچ سے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے تعمیر ہونے والی سڑک گزارنے کا کام شروع کردیا اور ایک زیریں عدالت سے اسٹے بھی لے لیا کہ تعمیراتی کام میں اسکول انتظامیہ کی طرف سے کوئی مداخلت یا ہنگامہ آرائی نہ کی جائے۔یہ قصہ ہے دو ہزار دس کا۔معلوم نہیں اس اسکول میں زیرِ تعلیم بگریان اور دیگر قریبی دیہاتوں کے بچے اب کہاں اور کیا کر رہے ہوں گے۔
کیا ہوا پاکستان کی آیندہ نسلیں موجودہ نسل سے زیادہ محروم رہ جائیں۔کچھ لوگوں کی تو سدھر جائیں گی۔جانے یہ جملہ اب دوبارہ کب کسی عدالت سے سننے اور پڑھنے کو ملے کہ ہر بڑے پیسے کے پیچھے کوئی نہ کوئی جرم چھپا ہوتا ہے۔