جناب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر تو منتخب ہوگئے لیکن 25 سے زیادہ امریکی شہروں میں اُن کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ دھرنے ، جلائو ، گھیرائو اور فائرنگ کے ساتھ مظاہرین نعرے بلند کر رہے ہیں کہ تم میرے صدر نھں ھو لیکن پاکستان کی طرح امریکہ میں مارشل لاء نافذ کئے جانے کا امکان نہیں۔ جنرل راحیل شریف 29 نومبر کو ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اُنہوں نے بھی دہشت گردی اور خاص طور پر کراچی کی ٹارگٹ کلنگ، لُوٹ مار اور قبضہ گروپوں کو ختم کرنے کا بہانہ بنا کر پاکستان میں مارشل لاء نافذ نہیں کِیا تو امریکہ میں کون کرے گا؟ پاکستان کے ’’صدرِ سُخن وَر‘‘ جناب ممنون حسین علامتی طور پر پاکستان کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں لیکن جناب ڈونلڈ ٹرمپ تو صدارت کا حلف اُٹھا کر امریکہ کے علاوہ اُس کے کئی اتحادی ملکوں کی افواج کے سپریم کمانڈر کا کردار ادا کریں گے۔ (یہاں لفظ ’’کردار‘‘ کے معنوں میں نہ لِیا جائے)۔
ہم پاکستانی جناب ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر اُداس ہو رہے تھے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر پاکستان میں (عالمی بنک) کے ڈائریکٹر جناب کے حوالے سے خبر طلوع ہُوئی کہ ’’پاکستان ترقی کی بلند ترین سطح پر ہے ۔ غُربت کم ہو رہی ہے‘‘۔ خبر کے مطابق عالمی بنک کے 2014ء کے جائزے کے مطابق غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کم ہو کر اب صرف 45ئ29 رہ گئی ہے‘‘ حیرت ہے کہ عالمی بنک نے پاکستان کے ترقی کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بارے میں اپنا جائزہ 2 سال بعد 11 نومبر 2016ء کو (جمعہ کے دِن) وزیراعظم نواز شریف اور جناب اسحاق ڈار کے لئے اچھی خبر کے طور پر کیوں عام کِیا؟ بہرحال اِس خبر کے عام ہونے پر جمعہ کا دِن وزیراعظم نواز شریف اور جناب اسحاق ڈار کے لئے اچھا جمعہ بن گیا۔
اِس خبر کے منظر عام پر آنے سے پہلے ہمارے اکثر سیاستدان اور ماہرین مُعیشت یہی کہتے اور لِکھتے رہے ہیں کہ ’’پاکستان میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں‘‘۔ خود جنابِ اسحاق ڈار کا بھی یہی (اقبالی بیان) کئی بار میڈیا کی زینت بن چکا ہے کہ ’’پاکستان میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ‘‘…
’’یہ دو دِن میں کیا ماجرا ہوگا؟‘‘
25 ستمبر 2016ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے بھی اپنی (مالیاتی پالیسی) کا اعلان کرتے ہُوئے یہ ’’اقبالی بیان‘‘ جاری کِیا گیا تھا کہ ’’وطنِ عزیز میں مہنگائی دوگنا ہوگئی ہے‘‘۔ مَیں نے تو خیر 27 ستمبر کے ’’نوائے وقت‘‘ میں ’’مہنگائی دوگُنا اور معاشی دھماکا؟‘‘ کے عنوان سے کالم لِکھ دِیا تھا اور جنابِ وزیراعظم سے دریافت بھی کِیا تھا کہ ’’آپ 28 مئی 2013ء کو لاہور میں ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں (غریبوں کے حق میں) ’’معاشی دھماکا‘‘ کرنے کا وعدہ کب پورا کریں گے؟‘‘ اصولی طور پر تو وزیراعظم صاحب سے حزبِ اختلاف کے قائدین کو پوچھنا چاہیے یا سُپریم کورٹ کو اور یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ ’’ہمارے یہاں مہنگائی دوگُنا ہونے کا کون ذمہ دار ہے؟‘‘ اور اب عالمی بنک کے جائزے کے مطابق اگر واقعی کی پوزیشن میں ہے تو ’’رتی رتی اور ماشہ ماشہ‘‘ غریبوں کو کیوں نہ دکھائی یا سُنگھائی جائے؟
کسی دَور میں سماجی اصلاح کی طرف مائل (عام پور پر بائیں بازو کے) لوگوں کو ’’ ترقی پسند‘‘ کہا جاتا تھا ۔ 1970ء کے عام انتخابات سے پہلے مولانا مودودی صاحب کی جماعتِ اسلامی نے ۔ اِس کے مقابلے میں ’’ اسلام پسند‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی۔ ایسے مسلمانوں کے لئے بھی جن کے آبائو اجداد صدیوں پہلے ’’اسلام کو پسند‘‘ کر کے ہندوئوں سے مسلمان بن گئے تھے۔ ہمارے یہاں ہر حکمران اور سیاستدان ترقی پسند رہا اور اب بھی ہے۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے تو اپنے دَورِ زوال میں ’’عشرۂ ترقی‘‘ بھی منایا۔ اُس دَور میں اخبارات میں صدر ایوب خان کے ’’ قوم سے خطاب‘‘ پر کچھ اِس طرح طنز کِیا جاتا تھا کہ ’’میرے ہم وطنو! پاکستان نے بہت ترقی کی اور بے شمار لوگوں نے بھی۔ میرے بیٹوں نے بھی ترقی کی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جائو! تم بھی ترقی کرو!‘‘۔
صدر ایوب خان کے بعد ہر حکمران/ سیاستدان اپنی ’’ترقی پسندی‘‘ کے باعث ’’مشہور‘‘ ہُوا۔ عالمی بنک، آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے جائزوں کی ضرورت رہی، اب بھی ہے۔ ہماری وزارتِ خزانہ کے اعلیٰ افسران کو پاکستان کے دیہات میں جھونپڑوں میں اور شہروں میں کچی بستیوں میں رہنے والے لوگوں کے مسائل کا علم نہیں ہوتا۔ اِن کا تیار کِیا ہوا بجٹ وزیرِ خزانہ کو پڑھنا ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور (1991ئ) میں جناب سرتاج عزیز وفاقی وزیر خزانہ تھے۔ اُنہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں نئے مالی سال کا بجٹ پڑھا۔ پریس گیلری میں مَیں نے جنابِ مجید نظامی کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر بجٹ تقریر سُنی۔ بعد ازاں جنابِ نظامی نے مجھ سے پوچھا کہ ’’وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کیسی رہی؟‘‘
مَیں نے عرض کِیا کہ ’’وفاقی بجٹ خوبصورت تتلیئوں، جُگنوئوں اور پتنگوں کی شاعری ہے اور سرتاج عزیز صاحب نے ہندی کے مہا کوی ’’ کالی داس‘‘ انگریزی شاعر شیکسپیئر اور پنجابی کے شاعر سیّد وارث شاہ کا انداز اختیار کِیا ہے ۔ مَیں آپ کی اجازت سے سرتاج عزیز صاحب کو ’’ملک الشعرائ‘‘ کا خطاب دے رہا ہُوں! نظامی صاحب نے اجازت دے دی۔ دوسرے دِن مَیں نے سرتاج عزیز صاحب کی پریس کانفرنس میں شرکت کی اور 4 جون اور 5 جون 1991ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں ’’آٹے دال کا بھائو‘‘ کے عنوان سے میرا کالم شائع ہُوا۔ مَیں نے سرتاج عزیز کی ’’ہجو ملِیح‘‘ لکھی تھی لیکن اُنہوں نے ٹیلی فون پر میرا شکریہ ادا کِیا ۔ جناب اسحاق ڈار بھی اعداد و شمار کی شاعری کرتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ ’’ڈار صاحب کو روایتی بجٹ کو لفظوں کے گورکھ دھندے کی پلیٹ میں سجا کر پیش کرنے کا فن آتا ہے لیکن بعد ازاں پتہ چلا کہ…
’’ مَیں خیال ہُوں ، کسی اور کا ، مجھے سوچتا کوئی اور ہے ‘‘
مَیں نے مفت مشورہ دِیا تھا کہ ’’قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی سے بچانے کے لئے وزیراعظم میاں نواز شریف، جنابِ ڈار کے بجائے قومی بجٹ گلوکاروں سے پڑھوایا کریں‘‘ اور اب عالمی بنک کے ماہرین جنہوں نے اپنے 2014ء کے جائزے کے بعد نومبر 2016ء میں پاکستان کو ترقی کی بلند ترین سطح پر فائز کر کے ’’پاکستان میں غربت کم ہو رہی ہے‘‘ ۔ کا سہارا لیا ہے۔ مَیں اُن کا کیا کروں؟ سوائے اِس کے کہ مَیں ’’شاعرِ سیاست‘‘ کی طرف سے یہ کہوں کہ…؎
’’کچے دھاگوں کی ، الجھی ہُوئی ہے
عالمی بنک تو جھوٹ کا ہے‘‘
بشکریہ نوائے وقت