ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آٹھ احادیث میں جنکو امام سیوتی نے نقل کیا ہے جو کہ اپنے وقت کے ایک عظیم محدث گذرے ہیں، یہ بتایا گیا ہے کہ زمین پر مدت حیات 7000 سال ہوتی ہے اور 5600 سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تک ہو چکے تھے۔ جب ہم 7000 میں سے 5600 تفریق کرتے ہیں تو 1400 باقی بچتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کے یہ امت 1500 سال سے زیادہ نہیں جئیے گی۔
جیسا کہ ہم اسلامی کلینڈر کے مطابق 1431 ہجری سے گزر رہے ہیں اور اگر حساب لگائیں کہ ہم 15 صدی شروع ہونے تک 14 صدی میں ہیں تو یہ بات یقینی ہے کہ حضرت مہدی کا ظہور اسی صدی میں ہوگا۔ کیونکہ اسکے بعد کوئی اور صدی باقی نہیں بچتی حضرت مہدی کے آنے کے لیے۔ 14 صدی کے شروع ہوتے ہی یکے بعد دیگرے پیش آنے والی آخرت کی نشانیاں جو کہ احادیث مبارکہ میں تفصیل کے ساتھ بتا دی گئی ہیں صاف طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہم آخری دور سے گزر رہے ہیں اور حضرت مہدی کا ظہور اسی صدی میں ہوگا۔
مزید یہ کہ پچھلے تیس سالوں میں پیش آنے والے واقعات اس حدیث کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس زمین پر مدت حیات 7000 سال کی ہے، جسمیں سے 5600 سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تک پورے ہو چکے اور اس امت کی مدت حیات 1500 سال سے زیا دہ نہیں۔
14 صدی کی شروعات سے پچھلے تیس سالوں میں یکے بعد دیگرے پیش آنے والے واقعات مندرجہ زیل ہیں۔
– 1975 میں٘ دریائے فرات کے پانی کا خشک ہونا۔ یہ کے بان ڈیم بنانے کی وجہ سے ہوا
– 1979 میں افغانستان پر قبضہ
– 1979 میں خانہ کعبہ پر ہونے والا حملہ اور اسکے نتیجے میں خون خرابہ۔ ۴۰۰ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔
– 1979 انڈیپینڈینٹا جہاز کا ڈوبنا اور اسی سال شروع ہونے والی سیاسی افراتفری۔
– 1980 میں ایران عراق جنگ۔
– 1981 اور ۱۹۸۲ میں سورج اور چاند کا رمضان کے مہینے میں گرہن ۱۵ دن کےوقفہ سے۔
– 1986 میں ستارہ ہلری کومٹ کا زمین کے قریب سے گزر۔
– سینگ کی شکل والے دمدار ستارہ کا ظہور – 24 فروری 2009 کو لولن کومٹ نظر آیا – یہ کومٹ حدیث میں بیان کیے گئے کومٹ سے مشابہت رکھتا ہے۔
جیسا کہ تمام کومٹ ایسٹ سے ویسٹ کی طرف سفر کرتے ہیں، لولن کومٹ نے ویسٹ سے ایسٹ کی طرف سفر کیا۔ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ اسکے دو سینگ ہونگے، لولن کے شکل بھی دو سینگ جیسی ہے۔ حدیث میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ بہت چمکدار ہوگا اور لولن دوسروں کی بنسبت چھ گناہ زیادہ چمکدار تھا۔
– سورج سے ظاہر ہونے والا نشان- 1994 میں سورج میں ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ اسکے علاوہ 11 اگست 1999 میں اس صدی کے آخری سورج گرہن ہوا جسے پہلی دفعہ بہت سارے لوگوں نے دیکھا۔
– 1990 میں٘ افغانستان پر قبضہ
– مٹی اور دھواں کے بعد بد نظمی – 11 ستمبر 2001 میں امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے نتیجہ میں ہونے والی بدنظمی۔
– آگ کے شعلوں سے عراق کی تباہی۔2003 میں شروع ہونے والی دوسری گلف وار میں پہلے دن سے ہی زبردست بمباری ہوئی۔
– عراق سے سکوں کا ختم ہونا۔ 2003 کی جنگ کے بعد عراقی کرنسی دینار کا خاتمہ۔
– ایک آرمی کا غائب ہونا – اچانک عراق کی 80,000 فوج کا غائب ہو جانا اس جنگ کی ایک بہت ہی انہونی بات ہے۔
– عراق اور شام کے خلاف پابندیاں – صدام حسین کے دور سے شروع ہونے والی پاندیاں جو دس سال تک جاری رہیں۔
– عراق کی تعمیر نو۔ قبضہ کے بعد تباہ ہونے والے شہروں کی دوبارہ تعمیر شروع ہوئی۔
– عراقیوں کا شام کی طرف انخلاء- امریکہ کے حملے اور بمباری کی وجہ سے لوگوں نے شام کی طرف ہجرت کی۔
– عراق کا تین حصوں میں تقسیم ہونا- امریکہ کے حملے کے بعد عراق تین حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
– شام میں بد نظمی
– فرات اور تیگریز کے درمیان جنگ – یہ اشارہ ایران اور عراق جنگ کی طرف ہے۔
– شہروں کا فنا ہونا – دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان پر گرنے والے ایٹم بم نے ہیرو شیما اور ناگاساکی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔
– مشرق سے اٹھنے والی آگ – جولائی 1991 میں عراق کا کوئیت پر حملہ اور تیل کے کووں کو آگ لگانے کی وجہ سے اٹھنے والا دھواں۔
– ٘مصر اور شام کے حکمرانوں کا قتل۔ 1981 میں مصر کے صدر انوار السادات کا قتل ہوا۔ لفظ شام کا مطلب صرف ملک شام ہی نہیں بلکہ اسکا مطلب ” بائیں جانب” بھی ہے اور یہ بہت عرصے تک حجاز کے بائیں جانب پائے جانے والے ملکوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس خطہ میں بہت سے حکمرانوں کا قتل ہوچکا ہے جسمیں شام کے وزیر صالح دین بطار 1920 میں اور اور محسن البرازی 1949 میں اور لبنان کے حکمران بشیر گمایل 1982 میں شامل ہیں۔
– اردن کے بادشاہ عبداللہ کا قتل – برطانیہ نے 1951 میں اردن کے بادشاہ عبداللہ کا قتل کیا۔
– نظام کی تبدیلی – 1989 میں برلن ٹوٹا اور 1991 میں روس کے ٹکڑے ہوئے۔
– قتل عام میں اضافہ
– عالمی معاشی بحران
– معصوم بچوں کا قتل عام
– آندھیاں اور طوفان
– قحط اور خشک سالی
– سیلاب کی کثرت
– متواتر زلزلے
– بجلیوں کا گرنا
– عام شہریوں کا قتل عام
– لوگوں کا ایک دوسرے سے جدا ہونا
– صاف طور پر اللہ کے وجود کا انکار
– حرام چیزوں کا حلال قرار دیا جانا
– جھوٹے نبیوں کا ظہور ہونا
– عمروں کا لمبا ہونا
– صحراوَں میں ہریالی کا آنا