عبدالقدیر خان کھڑا ہوا اور اس نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دی۔ اس واقعے کے بعد ریاست کی حکومت نے عبدالقدیر خان کو گرفتار کرلیا اور اس پر عوام کو بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ قائم یہ مقدمہ چونکہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ تھا اس لیے عام لوگوں کو ملزم سے ہمدردی اور اس مقدمے سے بڑی دلچسپی پیدا ہوگئی۔تیرہ جولائی 1931 کو سینٹرل جیل کشمیر میں عبدالقدیر خان پر قائم کردہ مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر ملزم سے اخوت اور یکجہتی کے مظاہرے کے لیے ہزاروں افراد جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوگئے۔ابھی مقدمے کی سماعت جاری تھی کہ نماز ظہر کا وقت ہوگیا۔ اس موقع پر عوام نے جیل کے نزدیک نماز کے اہتمام کے لیے اذان دینی چاہی تو ان کے اس ارادے کی راہ میں ریاستی پولیس حائل ہوگئی۔ چنانچہ جونہی ایک نوجوان نے اذان دینی شروع کی تو پولیس نے اس نوجوان کو گولی مار کر شہید کردیا۔اس کے شہید ہوتے ہی ایک اور نوجوان اٹھا اور اس نے اپنے پیش رو کی جگہ اذان دینی شروع کردی۔ پولیس نے اس نوجوان کو بھی شہید کردیا۔یہ سلسلہ یونہی جاری رہا اور اذان کی تکمیل تک 22 فرزندان اسلام شہید کر دیے گئے۔اس ایمان افروز واقعہ نے پوری ریاست کشمیر میں آگ لگا دی اور کشمیر میں جدوجہد آزادی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ اہل کشمیر ہر سال13جولائی کو اسی واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اسے یوم شہدا کے طور پر مناتے ہیں۔