counter easy hit

تاریخ میں سب سے خطرناک قاتل خواتین کی افسوسناک اور المناک کہانیاں

جاسوسی ڈرامے، بالخصوص وہ جو قتل کی کہانی کے گرد گھومتے ہیں، عام طور پر دیکھنے والوں پر ڈر و خوف کی فضا طاری کر دیتے ہیں۔ یہ کہانیاں حقیقت پر مبنی ہوں یا نہ ہوں، عجیب بات یہ ہے کہ ہم خاتون قاتل سے متاثر ہوتے ہیں، چاہے وہ ننجا جو کبھی اپنے دشمنوں کے ساتھ ہم بستری کرتی ہے یا کسی خفیہ سروس کی رکن۔دنیا کی تاریخ میں سب سے خطرناک قاتل خواتین کی افسوسناک اور المناک کہانیاں درج ذیل ہیں ۔پہلی جنگ عظیم میں ایک رقاصہ کے تذکرے تھے جنھیں جاسوسی کے الزام میں سزائے موت دی گئی۔مارگریٹ زیلے 1876 میں ہالینڈ میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھیں بدتمیزی پر مبنی شادی کا رشتہ بھگتنا پڑا اور ان کے شوہر فوج کے ایک کپتان تھے اور خود کو 1905 میں ایک مختلف شخصیت میں ڈھالنے سے پہلے شیر خوار بیٹے کی موت کا دکھ برداشت کرنا پڑا۔ شادی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد انھوں پیرس میں بطور رقاصہ زبردست شہرت بٹوری۔ماتا ہاری کے نام سے شعلۂ جوالہ رقاصہ نے میلان کے لا سکالہ اور پیرس کے اوپرا میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے اس وقت کے شائستگی سے متعلق قوانین سے بچنے کے لیے اپنی پرفارمنس کو ’مقدس رقص‘ کے طور پر پیش کیا۔ان کے چاہنے والوں میں وزیر، صنعت کار اور جنرل جیسی امیر شخصیات شامل تھیں اور ان کی آسان رسائی کی وجہ سے جرمنی نے انھیں پیسوں کی پیشکش کی کہ وہ اتحادی افواج کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کریں۔پھر اطلاعات کے مطابق ان سے پہلی جنگ عظیم میں کہا گیا کہ وہ اتحادی افواج کے لیے جاسوسی کریں۔ماتا ہاری نے خود اپنے ہاتھوں سے کسی کو قتل نہیں کیا تھا، تاہم افواہیں ہیں کہ ان کی جاسوسی کی وجہ سے 50 ہزار فوجی مارے گئے۔ فرانس نے ان کی دہری شخصیت پر شک کرنا شروع کیا اور فروری 1917 میں انھیں پیرس سے گرفتار کیا گیا اور اکتوبر میں فائرنگ سکواڈ کے ذریعے سزائے موت دے دی گئی۔ان کی موت کے سو برس گزرنے کے بعد بھی یہ بحث کاری ہے کہ آیا وہ قصور وار تھیں یا نہیں؟میری آن شارلٹ کورڈی جیسے نام کے ساتھ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ کورڈی کا تعلق اشرافیہ سے تھا۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن یہ ہے کہ جب انھوں نے انقلاب فرانس میں شمولیت اختیار کی تو دراصل اسی شخص کے ساتھ تھیں جن کو انھوں نے قتل کیا۔ان کا تعلق گیروندن سے تھا جو کہ انقلاب فرانس کی اعتدال پسند شاخ تھی۔ یہ بادشاہت کے خاتمے کے حق میں تو تھے لیکن انقلاب میں تشدد کے حامی نہیں تھے۔شارلٹ نے ژان پال مارات کو قتل کیا تھا۔ وہ جیکوبن گروپ کے ایک سینیئر رکن تھے جس کی شارلت مخالف تھیں۔ اس گروپ میں شدت پسند سوچ رکھنے والے انقلابی شامل تھے اور ان کی وجہ سے دہشت کا دور شروع ہوا جس میں16500 سے زیادہ افراد کو مار دیا گیا۔جولائی 1939 میں شارلٹ نے باتھ روم میں مرات پر چاقو سے وار کیا۔ وہ کیسے وہاں تک پہنچیں؟ بظاہر مرات کو جلد کا مرض لاحق تھا اور ان کے لیے غسل لیتے وقت کسی مہمان سے ملاقات کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔شارلٹ کو موقع سے گرفتار کر لیا گیا اور مقدمے میں انھوں نے کہا کہ ایک آدمی کو مار کر ہزاروں افراد کی جانیں بچائی۔ ان کو اس واقعے کے چار دن بعد سزائے موت دے دی گئی اور اس وقت ان کی عمر 24 برس تھی۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قاتل اپنے کوڈ نام یا خفیہ نام سے کتنا لگاؤ رکھتے ہیں۔ اپنے نام شی گولن کے بجائے انھوں نے ’شی جین کوئی‘ کے نام کا انتخاب کیا، جس کے دونوں الفاظ کا مطلب ہے ’تلوار‘ اور ’دوبارہ ابھرنا‘ ۔ انھوں نے اپنے والد کی موت کا انتقام لینے کی ٹھان لی، جن کا 1925 میں اس وقت کے جنگی سردار سن چن فانگ نے سر قلم کر دیا تھا۔اس واقعے کے دس برس بعد جب سن چن فانگ ریٹائر ہوئے اور بدھ مت بن گئے تو شی جین کوئی نے ان کو دھونڈ کر اس وقت ان کے سر میں گولی مار کر قتل کردیا جب وہ مندر میں عبادت کر رہے تھے۔ تاہم وہ جائے وقوعہ سے بھاگنے کی بجائے وہیں رکی رہیں اور قریب موجود لوگوں سے اپنے اقدام کا اعتراف کیا اور یہ ان کے آئندہ کے جامع منصوبے کا حصہ تھا، تاکہ میڈیا اور عوام کی ہمددری حاصل کر سکیں۔ایک اعلیٰ عدالتی کیس میں قتل کو دوسرے کے والدین کے احترام کی بنیاد پر معاف کر دیا گیا۔ ان کی وفات 1979 میں ہوئی۔ایک وقت تھا کہ بریجیٹ جرمنی میں سب سے خطرناک اور شیطان صفت خاتون کہلاتی تھیں۔ وہ ریڈ آرمی فیکشن کی سرکردہ رکن تھیں اور 1977 میں اس دہشت کی لہر میں ملوث تھیں جسے ’جرمن خزاں‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس انتہائی بائیں بازو کے شدت پسند گروپ نے ستر کی دہائی میں مغربی جرمنی کو دہشت زدہ کر رکھا تھا اور انھوں نے اس دوران متعدد افراد کو اغوا اور قتل کیا اور ساتھ میں بم دھماکے بھی کیے گئے۔مجموعی طور پر یہ گروپ 30 سے زائد ہلاکتوں کے ساتھ ایک جہاز کی ہائی جیکنگ میں بھی ملوث تھا۔ یہ مغربی جرمنی کی سرمایہ دارانہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔بریجیٹ کو 1982 میں گرفتار کیا گیا اور پانچ مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ساتھ میں نو افراد کی ہلاکت میں ملوث ہونے الزام میں 15 سال قید کی اضافی قید سنائی گئی۔ اس میں ایک بینکر کا قتل بھی شامل ہے جس کو پہلے پھول پیش کیے اور ساتھ ہی قریب سے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کےعلاوہ ان پر ایک امریکی کمانڈر اور ان کی اہلیہ کو راکٹ لانچر کے ذریعے قتل کرنے کی کوشش کا الزام بھی تھا۔سال 2007 میں اپنے جرائم پر پشیمانی کا اظہار کیے بغیر اور حکام سے تعاون نہ کرنے کے باوجود انھیں پیرول پر رہا کر دیا گیا۔ اس فیصلے پر جرمنی میں تنازع پیدا ہوا اور اچھی خاصی بحث ہوئی۔ بریجیٹ اب بھی حیات ہیں۔خاتون ایجنٹس عام طور پر اپنا کام چپ چاپ کر سکتی ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی ایجنٹ پینولپی کو ’اریکا چیمبرز‘ کے فرضی نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کا فلسطینی گروپ بلیک ستمبر کے رہنما علی حسن سلامی کے قتل میں ہاتھ تھا، جو 1972 کے میونخ اولپمکس میں 11 اسرائیلی ایتھلیٹس کے اغوا اور قتل میں ملوث تھے۔میونخ میں ہونے والی ہلاکتوں کے جواب میں اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے آپریشن کی منظوری دی جس کے تحت موساد کے ایجنٹس کو بلیک ستمبر کے ارکان کی تلاش اور انھیں اپنے کیے پر سزا دینا تھی۔ قتل کی پانچ ناکام کوششوں کے بعد سلامی بلآخر چار محافظوں سمیت مارے گئے۔ 1979 میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ان کے اپارٹمنٹ کے باہر بم دھماکے کے نتیجے میں ان کی ہلاکت ہوئی۔ایجنٹ پینولپی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے بم دھماکہ کیا اور اس مقصد کے لیے وہ سلامی کے فلیٹ کے قریب ایک سادہ زندگی گزار رہی تھیں اور یہاں تک خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا ایک بوائے فرینڈ بھی تھا۔دھماکے کے بعد ایجنٹ پینولپی غائب ہو گئیں لیکن اپنا سامان پیچھے چھوڑ گئیں، جس میں اریکا چیمبرز کے نام سے ایک برطانوی پاسپورٹ بھی تھا

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website