تحریر: شاہد شکیل
چوری کرنا بہت بری بات ہے کئی لوگ جان بوجھ کر چوری کرتے ہیں اور کئی ڈنکے کی چوٹ پر کہ اگر ہمت ہے تو ثابت کیا جائے کہ چوری کی گئی ہے لیکن انسانی دماغ ،سوچ یا اسکی میموری کی چوری ناقابل یقین بات ہے ، مثلاً ایک انسان دوسرے سے کہے کہ میں نے تمہاری یادداشت چوری کی ہے۔ محقیقین کا دعویٰ ہے کہ انسانی دماغ اسکی سوچ ،یادیں ،خیالات وہ منفی ہوں یا مثبت دماغی خلیات میں نفرت بھری ہو یا محبت کا پیغام بذریعہ خصوصی جدید تکنیک اس کے اندر پائے جانے والے تمام عوامل کو آن اور آف کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے انسان میں منتقل کیا جا سکتا ہے،ماہرین کا کہنا ہے عام طور پر کئی لوگ دوران گفتگو خاص ،پیچیدہ یا گہرے معاملات و مسائل پر مفصل بات نہیں کرنا چاہتے کہ کہیں ان کے راز نہ افشا ہو جائیں اور انجانے میں راز کھل جانے پر غلطی نہ سر زد ہو جائے اسکی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً وہ افراد خوفزدہ ہوتے ہیں یا انہیں کئی معاملات میں مکمل انفارمیشن نہیں ہوتی یا وہ یہ بات جانتے ہیں کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے اور سچائی بیان کرنے کی صورت میں مزید کشیدگی پیدا ہوگی اور انہیں اپنی رائے کا اظہار اور دفاع کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں ،لیکن محقیقین کے مطالعے سے ناقابل یقین نتائج سامنے آئے ہیں کہ انسانی دماغ ایک ایسی پاور فل چیز ہے جو پل بھر میں کئی رنگ بدلتا ہے اور لمحوں میں کتنی آسانی سے دھوکہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
،لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ انسانی دماغ پلک جھپکتے منفی اور مثبت کردار ادا کرے یا کیسے ممکن ہے کہ طبی مداخلت سے انسانی دماغ میں تبدیلی لائی جائے یا خیالات ،میموری ،سوچیں اور حتیٰ کہ مستقبل میں نظر آنے والے واقعات ،تحقیق و اعداد وشمار کا مطالعہ کیا جا سکے۔ یونیورسٹی آف یارک برطانیہ اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس کے سائنسدانوں کی مشترکہ ٹیم نے حالیہ تحقیق سے ایک حیرت انگیز اور ناقابل یقین موضوع پر ریسرچ کے بعد دریافت کیا کہ بذریعہ مقناطیسی سیمولیشن سے انسانی دماغ کو ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے اور اسکے اندر پائے جانے والے لاکھوں کروڑوں خیالات چاہے وہ عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں یا دنیاوی ہوںانہیں بذریعہ مصنوعی نیند ظاہر کیا جا سکتا ہے جس میں یہ بات بھی خصوصاً شامل ہے کہ انسان کے دماغ میں کس حد تک نفرت یا الفت کے خلیات موجود ہیں۔تحقیق و تجربات کے مطابق پیشانی کے عقب میں ایک مخصوص دماغی اعضاء پایا جاتا ہے جو آنکھوں سے اس قدر منسلک ہوتا ہے کہ فوری طور پر خود کار مقناطیسی قوت و صلاحیت کے سبب فوری ایکشن کرتا ہے۔
مسائل کو جاننے کے بعد نارمل طریقے سے انہیں حل کرتا اور تمام سرگرمیوں کا علم ہونے پر حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اس ایموشنل پراسس میں مضبوطی سے متحرک رہتا ہے مطالعے میں بتایا گیا کہ دماغ کی سیمولیشن پر تحقیق کے لئے کئی افراد کا چناؤ ہوا ان افراد میں آدھے لوگوںکے دماغی سسٹم میں مقناطیسی صلاحیت موجود تھی جبکہ بقیہ افراد کے دماغ نے سیمولیشن سسٹم کو یکسر رد کرنے کے سبب ریڈیوس کیا بعد از تحقیق تمام افراد کسی قسم کے موضوع یا نظریات کا شکار نہیں ہوئے ،ماہرین نے شرکاء سے مقناطیسی سیمولیشن کے بارے میں سوالات کئے کہ دوران تحقیق انہیں کیسا محسوس ہوا اور کیا سوچ رکھتے تھے جس کے جواب میں نصف لوگوں نے جو عارضی صلاحیت رکھتے تھے کا کہنا تھا نہ تو ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں نہ فرشتوں پر اور نہ آسمان پر جبکہ دیگر افراد کا جواب مثبت تھا کہ کائنات کا وجود ہے اور اسے ان دیکھی سپر پاور نے تخلیق کیا ہے۔محقیقین کا کہنا ہے ہم اس حیرت انگیز تجربے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے۔
کیونکہ جو انسان حقیقت میں سوچتا ہے وہی اسکے دماغ میں مقید ہوتا ہے اور گہرائی سے وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کئی بار دنیاوی مسائل آڑے آنے کی وجہ سے بیان نہیں کر پاتا بدیگر الفاظ یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں ہے کہ کچھ لوگ کائنات پر یقین رکھتے ہیں اور کچھ نہیں۔بذریعہ برین سیمولیشن ہم انسانی دماغ سے کئی فعال سوچیں تلاش کرنے کے بعد باہر نکالنا چاہتے ہیں جو دماغ کے مختلف علاقوں میں پوشیدہ ہیں مثلاً نظریاتی طور پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ حقائق اور نظریات کو کیسے دیکھتے اور سوچتے ہیں اور مسائل پیش آنے پر ان دونوں کیٹاگریز یا کن راستوں کا تعین کرتے ہیں کہ مسائل کے حل کار آمد ثابت ہوں اور ٹھوس نتائج ظاہر ہو سکیں،یہ ابتدائی تحقیقات ہیں اور بہت جلد تصدیق کی جا سکتی ہے کہ انسان اپنے عقائد کے کتنے پکے ہیں یا کسی دوسرے انسان سے کتنی ہمدردی رکھتے ہیں اس دماغی سیمولیشن کے ذریعے نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں کہ انسان کا دماغی میکانزم کتنا مضبوط یا کمزور ہے،انسان کی سوچ اور میموری لامحدود ہے اور ہر سیکنڈ میں تبدیل ہوتی ہے۔
ریسرچ کے مطابق مصنوعی نیند میں انسان کی سوچ یا میموری کی نقل یا چوری کی جا سکتی ہے اور وہی سوچ کسی دوسرے مصنوعی طور پر سوئے انسان میں منتقل کی جاسکتی ہے ۔ماہرین نے میموری کی چوری کے کئی تجربات چوہوں کو مصنوعی نیند میں سلا کر کئے چوہوں کی یادداشت کو ایک دوسرے میں منتقل کیا اور ذہنی خلیات کی تبدیلی کے بعد مثبت نتائج ظاہر ہوئے کہ سوچیں چوری کی جاسکتی ہیں۔فرانس کے ایک نیورو سائینسٹسٹ نے حال ہی میں بذریعہ الیکٹروڈ دو چوہوں پر مصنوعی نیند کے بعد دونوں کے دماغی خلیات میں رد وبدل کیا اور اسے کامیابی حاصل ہوئی،ایک سائنسی میگزین میں سائنسدان نے بتایا کہ مصنوعی نیند سے یادیں جمع کی جاسکتی ہیں اور بیدار ہونے کے بعد انہیں خارج بھی کیا جا سکتا ہے۔سوچنا یہ ہے۔
کہ کیا کوئی سوچ کی چوری کر سکتا ہے کیا دماغ کسی کو دھوکہ دے سکتا ہے کہ انسان کو علم ہی نہ ہو اور اسکے دماغ یا سوچوں کی چوری ہو جائے لیکن بقول ماہرین یہ سب ممکن ہے کیونکہ اگر دماغی خلیات میں نئی کاشت پیدا ہو سکتی ہے تو وہی کاشت دوسرے انسان میں منتقل بھی ہو سکتی ہے دماغی خلیات بلڈ بینک نہیں کہ ایک دوسرے میں منتقل کئے جائیں لیکن جدید ریسرچ کے مطابق ماہرین نے کئی کامیاب تجربات کئے اور کامیابی حاصل ہوئی ،کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ایک صدی قبل ایکسرے مشین سے انسانی اعضاء دیکھے جا سکتے ہیں یا انسان چاند پر جائے گا لیکن سب کچھ ممکن ہے کیونکہ سائنسدانوں کی ریسرچ ڈکشنری میں ناممکن لفظ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سائنسدان دن رات جدید ریسرچ میں مصروف رہتے ہیں۔
تحریر:شاہد شکیل