لاہور (ویب ڈیسک) کوئی نہ کوئی قوت اِس ملک میں ضرور ایسی ہے جو سیاسی حکمرانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ اُن کے خلاف کوئی نہ کوئی محاذ کھڑے کیے رکھتی ہے کہ کہیں وہ اپنے کچھ کارناموں کے زورپر عوام میں اتنے مقبول نہ ہو جائیں جس سے اُس قوت بلکہنامور کالم نگار توفیق بٹ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ اُس ”اصل قوت“ کی اپنی مقبولیت پر کوئی حرف آئے یا اُن کی خودساختہ مقبولیت کے سامنے کوئی ”سول مقبولیت“ آکر کھڑی ہوجائے جس کے ظاہر ہے کچھ ایسے نتائج نکل سکتے ہیں جو کسی صورت میں گوارا نہیں ہوسکتے، یہ ”قوت“ اپنی اِس ”انفرادیت“ کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حدتک جاسکتی ہے کہ پاکستان میں ہرقسم کے عیبوں سے پاک صرف ایک ہی قوت ہے، وہ ہروقت اِس اندیشے کا شکار رہتی ہے کہیں اُس کی یہ ”انفرادیت“ کمزور نہ پڑ جائے۔ اِس حوالے سے اُن کے خوف کا عالم یہ ہے اپنے ہی تراشے ہوئے ”بتوں “ کی پانچ سالہ معیاد اُن سے ہضم نہیں ہوتی، چند ماہ بعد ہی اُنہیں توڑنا پھوڑنا شروع کردیا جاتا ہے، ….2013کے انتخابات میں جس بُت میں تیسری بار اُنہوں نے جان ڈالی تھی اُس کے اقتدار کا سوا سال بھی ابھی نہیں گزرا تھا اس کا سواستیاناس شروع کردیا گیا، اُس کے خلاف ایک نئے بُت کو کنٹینر پر چڑھا دیا گیا، اِس نئے بت کو آخری لمحات تک یقین نہیں آرہا تھا اُس میں اتنی جان ڈال دی جائے گی کہ وہ اقتدار کی منزل تک جا پہنچے گا، اُس کا خیال تھا اب کے بار بھی اُسے صرف استعمال ہی کیا جائے گا، بلکہ سچ پوچھیں وہ بے چارہ پوری طرح اس یقین میں مبتلا ہوچکا تھا اُسے صرف مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے ہی مستقل طورپر رکھ لیا گیا ہے، جیسا کہ ایک صاحب قربانی کے لیے ایک بکرا لے کر آئے، اور اُسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرلیا۔ پھر اُس بکرے کو وہ ”مولوی صاحب“ کے پاس لے گئے، اُنہیں ساراماجرہ بتایا اور اُن سے پوچھا ”اب اس بکرے کی قربانی جائز ہوگی؟۔ مولوی صاحب نے بڑے پیار سے دو چار ہاتھ بکرے پر پھیرے اور فرمایا ” قربانی تو پتہ نہیں اس کی جائز ہوگی یا نہیں، بہتر ہے اب اسے ایسے ہی کاموں کے لیے رکھ لیا جائے “ ….سمجھ میں نہیں آرہا ایک سیاسی بکرے کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے برس ہا برس استعمال کرنے کے بعد اقتدار کی منزل تک لے ہی آئے ہیں تو محض سواسال بعد اُس کے ساتھ وہی بدسلوکی کیوں شروع کردی گئی ہے جو اُس سے پہلے والے بکروں سے کی جاتی رہی ہے؟ جبکہ یہ ”بکرا“ اپنی کچھ خوبیوں کی بناءپر اُس روایتی بدسلوکی کا ہرگز مستحق نہیں ہے۔ اُس کے مقابلے میں ایک ”مذہبی بھینسہ“ آگیا ہے، مزے کی بات یہ ہے اُس بھینسے کے ساتھ ماضی میں استعمال ہونے والے کچھ بکرے بھی ہیں۔ اس بھینسے کی ایک آدھ ٹکرسے اُمید یہی ہے ”اقتداری بکرے“ کا بگڑے گا تو کچھ نہیں مگر اُس کے بعد وہ بے چارہ کسی کو ”ٹوڈ“ مارنے کے قابل نہیں رہے گا، جس کا اس سے ہروقت خطرہ محسوس کیا جاتا ہے۔ حالانکہ میرے نزدیک یہ بکرا”ٹوڈ“ مارنے والا ہے ہی نہیں۔ البتہ اُس کے ساتھ بدسلوکی جاری رہی یہ وہ کام کربھی سکتا ہے، ….ایک تماشہ پھر سے لگادیا گیا ہے، اب عوام عرف ”بھیڑ بکریوں“ کی ساری توجہ ایک بار پھر اس تماشے کی طرف ہوجائے گی، بلکہ ہوچکی ہے۔ اس تماشے کو دیکھنے میں وہ اس قدرمگن ہوچکے ہیں اُنہیں یاد ہی نہیں وہ مسائل کی دلدل میں کس قدر دھنس چکے ہیں؟ مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی اور اس اقسام کی دیگر لعنتوں کو بھلا کر وہ تماشہ دیکھنے میں مگن ہیں اور تماشہ کرنے والوں یا دیکھانے والوں کا شاید یہی مقصد ہے جو پورا ہورہا ہے، یہ تماشہ ختم ہوگا، ایک نیا تماشہ شروع ہوجائے گا اور اٹھارہ بیس کروڑ بھیڑ بکریاں اُس میں مگن ہوجائیں گی، …. اب جانوروں سے ذرا ان کی طرف آتے ہیں جنہیں پورا یقین ہے وہ انسان ہیں، میں اس وقت جاپان میں ہوں، یہاں لوگ مولانا فضل الرحمان کو ان کے اصل نام سے اتنا نہیں جانتے جتنا اس نام سے جانتے ہیں جو شاید ہمارے محترم وزیراعظم نے ان کا رکھا تھا، اور ٹھیک ہی رکھا تھا، کیونکہ کسی کے اصل نام کے بجائے جو نام زیادہ مقبول ہو جائے وہ ٹھیک ہی ہوتا ہے، جو مارچ یا دھرنا مولانا دینے جارہے ہیں اس میں ہرطرح کے سازوسامان کی کمی ہوسکتی ہے سوائے ڈیزل کے …. کیونکہ وہ اتنا اکٹھا کر لیا گیا ہے زندگی اور سیاست کی گاڑی آسانی سے چلتی رہے گی، میں ابھی سوچ رہا تھا مولانا اس حوالے سے کتنے بدقسمت ہیں جو کچھ ماضی میں اچھا برا وہ کرتے رہے ہیں، اور جوکچھ اب وہ کررہے ہیں، مطلب کہ جو فساد اب وہ ڈالنے جارہے ہیں، بلکہ کافی حدتک ڈال چکے ہیں سوائے اُن کی اپنی جماعت کے، کوئی ایک شخص نہیں جو یہ کہہ سکے کہ ان کے اس فساد کو کسی غیر سیاسی قوت کی حمایت حاصل نہیں ہے، دوسری طرف غیرسیاسی قوت کے لیے بھی یہ تاثر ایک لمحہ فکریہ ہے، لہٰذا مولانا نے یا ان کے ساتھیوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا، یا ایک حد سے زیادہ فساد برپا کیا اور ان کے ساتھ کوئی رعایت کی گئی تو اس کا اتنا نقصان مولانا کو نہیں ہوگا جتنا اس قوت کو ہوگا جس کے بارے میں مبینہ طورپر یہ تاثر موجود ہے کہ مولانا کو اس کی سرپرستی حاصل ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اقتدار میں آئے ابھی سوا سال گزرا ہے، مولانا سے یہ سواسال صرف اس لیے ہضم نہیں ہورہا بہت عرصے بعد ایسی حکومت آئی ہے جس میں ان کا حصہ نہیں رکھا گیا، پچھلی بددیانت حکومتوں یا حکمرانوں کو ان کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کروانے میں مولانا کا اہم کردار شاید اس لیے رہا ہے کہ ان حکومتوں یا حکمرانوں سے مولانا کے اس طرح کے مفادات آسانی سے پورے ہو جایا کرتے تھے، اب کوئی انہیں منہ نہیں لگارہا، حتیٰ کہ اپوزیشن جماعتیں بھی انہیں وہ اہمیت نہیں دے رہیں جو پہلے دیا کرتی تھیں، پیپلزپارٹی اور نون لیگ ان کے مارچ یا دھرنے میں محض خانہ پُری کے لیے شریک ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں مولانا کے حالیہ فساد کا کوئی ایسا ایجنڈہ نہیں جس پر کھل کر ان کا ساتھ دیا جائے، …. البتہ حکومت ڈری اور سہمی ہوئی ضرور ہے، اب پتہ نہیں حکومت مولانا سے ڈری اور سہمی ہوئی ہے یا مولانا کے مبینہ سرپرستوں سے ڈری یا سہمی ہوئی ہے؟ سو مولانا کا دھرنا یا مارچ کسی اور حوالے سے کامیاب ہو نہ ہو کم ازکم اس حوالے سے ضرور کامیاب ہو جائے گا، بلکہ اس حدتک ہو بھی گیا ہے کہ انہوں نے حکومت کو خوفزدہ کردیا ہے، کچھ وفاقی وصوبائی وزراءاس قدر خوفزدہ ہیں کہ اپوزیشنی جماعتوں کے رہنماﺅں کو فون کرکرکے پوچھ رہے ہیں کیا ہونے جارہا ہے؟ وزیراعظم خان صاحب کی جماعت میں چونکہ اکثر وزراءدوسری جماعتوں سے اُدھارپر آئے ہوئے ہیں لہٰذا ان بے چاروں کی یہ تشویش بالکل جائز ہے کہ اگر واقعی کچھ ہونے والا ہے تو وہ اپنی پرانی واصلی جماعتوں میں جانے کی منصوبہ بندی ابھی سے کرلیں، …. بلکہ سچ پوچھیں مجھے تو خود وزیراعظم عمران خان بھی خوفزدہ دیکھائی دے رہے ہیں، مختلف تقریبات میں ان دنوں جو لب ولہجہ اور زبان وہ مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے استعمال کررہے ہیں وہ وزیراعظم کے نہیں ایک خوفزدہ شخص کے شایان شان ہی ہوسکتی ہے
!!