جب آدم ؑبنایا گیا تو حوا بھی تخلیق ہوئی۔ناطق اور غیر ناطق کی تمیز کے بغیر ہر ذی روح کے جوڑے بنائے گئے۔ یعنی جتنے نر کم و بیش اتنی ہی مادائیں تاکہ افزائشِ نسل کی گاڑی کے دونوں پہئیے برابر کے ہوں اور نسلِ جاندار بلا ہچکولے کھائے زندگی کے بے انت سفر کو نسل در نسل ناپ سکے۔
کبھی کبھی ذہن میں سوال آتا ہے کہ اس دنیا میں اگر ہر ذی روح نسل میں آدھوں آدھ کے بجائے اسی فیصد نر اور بیس فیصد مادائیں یا اسی فیصد مادائیں اور بیس فیصد نر ہوتے تو یہ دنیا کیسی ہوتی۔شائد بہت پہلے ہی حیات کی سواری الٹ چکی ہوتی۔ذرا سوچئیے نر اور مادہ کی تعداد میں برابری کے باوجود بھی اگر آج دنیا کے ایک تہائی چرند، پرند، نباتات اور بحری حیاتیات نسلی بیخ کنی کی کگار پر آ چکے ہیں تو فطرت کی جانب سے اگر آدھوں آدھ نسلی توازن نہ رکھا جاتا تو حیات کتنے قدم اور ڈگ بھر سکتی؟
اس تناظر میں اپنے تئیں اشرف المخلوقات سمجھنے والے حیوانِ ناطق کا جنسی مساوات و عدم امتیاز کے حساب میں غیر ناطق دنیا سے موازنہ کیا جائے تو آدمی کوسوں پیچھے نظر آتا ہے۔چرند و پرند و نباتات کی کوئی بھی نسل دیکھ لیں رنگ و نسل چھوڑ ہم نسل مذکر و مونث میں بھی کوئی آپسی حقارت مشاہدے میں نہیں۔بلکہ غیر ناطق معاشرے میں تو بقائے نسل کا بیشتر کشٹ اٹھانے کے سبب مادہ زیادہ باعزت و بااختیار و فعال ہے۔جنگل کے بادشاہ کے خاندانی ڈھانچے کو ہی جانچ لیجیے۔
شیر ہمارے لیے شیر سہی مگر اپنی کچھار کی حدود میں وہ محض دستوری بادشاہ ہے۔شکار شیرنی کرتی ہے، بچوں کی تربیت اور جنگل کے آداب سکھانے کا کام شیرنی کرتی ہے، غیر جانوروں سے تحفظ کا معاملہ ہو تو شیرنی ہی خاندانی غول کی قیادت کرتی ہے۔پھر بھی اگر شیر دھاڑے کہ خبردار تم مادہ ہو اپنی اوقات میں رہو تو سوچئے گھریلو زندگی میں اس نادان شیر کا مادہ اور بچوں کے ہاتھوں کیا حشر ہوگا؟ شیر کی بقا ہی اس میں ہے کہ باہر جو مرضی ششکے دکھائے مگر گھر میں حد سے حد پچاس فیصد کا پارٹنر بن کے رہے۔اس فطری اصول سے رو گردانی کرے گا تو جنگل میں بھی دربدر پھرے گا۔
مگر یہ انسان اور انسان میں بھی مرد کا وصف ہے کہ وہ اپنے غیر فطری افعال کو فطرت کا چولا پہنا کر کچھ بھی ثابت کر سکتا ہے۔حتی کہ اپنی بھاگے دار کو بھی صنفِ نازک قرار دے کر مردانگی کے نام پر کچھ بھی الٹ پلٹ کر سکتا ہے۔
ایک تو مجھے آج تک صنفِ نازک کی اصطلاح پلے نہیں پڑی۔جب میں خود کو کروٹ دلانے کے لیے بھی بے بسی سے غاؤں غاؤں کرتا تھا تو میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ہر ضرورت پوری کرنے والی، میرا معدہ کبھی خالی نہ رہنے دینے والی، اپنے کچے پکے ٹوٹکوں سے میری جسمانی تکلیف رفع کرنے والی اور سب سے بڑی بات مجھے زبان، تہذیب اور اچھے برے میں تمیز سکھانے والی بھلا صنفِ نازک کیسے ہو سکتی ہے۔محض اس لیے کہ وہ پہلوانی نہیں کر سکتی تھی؟ (اب تو وہ بھی کر رہی ہے)۔
آج 2017ء میں بھی صدیوں کی ماری انسانی مادہ کو جب برابری کا حق دینے کا معاملہ آتا ہے تو نر کیسی آسانی سے بھول جاتا ہے کہ یہ حق تو خدا ایک نر کے بدلے ایک مادہ کے اصول پر پہلے ہی دے چکا۔اسی لیے تو کرہِ ارض کی ساڑھے سات ارب انسانی آبادی میں ہر ایک سو سات مردوںکے مقابلے میں ایک سو ایک خواتین موجود ہیں۔ اگر ناکافی غذائیت، کھان پان اور علاج میں عورت کے معاملے میں غفلت پر قابو پالیا جائے تو صفر اعشاریہ سات کا معمولی عددی فرق بھی نہ رہے۔خدا نے تو یہ حق نہ دینے کے لیے کوئی تاویل نہیں دی کیونکہ دونوں پلڑے متوازن رکھنے کی بات آئے تو ایک پلڑے میں ٹھوس اور دوسرے میں تاویل کا باٹ رکھنے سے مسئلہ ہم وزن تھوڑا ہو جاتا ہے۔
اب تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس کے پاس معاشی و سیاسی قوت ہو وہ پلڑا اپنی طرف جھکا کے توازن کو غیر متوازن کر سکتا ہے۔جانوروں کو چونکہ سیاسی و معاشی قوت کے مثبت و منفی سے کوئی غرض نہیں لہذا وہ اس اعتبار سے بے سکون اور طلب گیر بھی نہیں۔مگر یہاں تو مرد نے معاشی و سیاسی قوت میں اپنی ہی رفیق یعنی عورت کو بھی اس کا جائز فطری حصہ دینے سے انکار کر رکھا ہے۔
اس راہ میں یہ خیال بھی کھوٹا ثابت ہوا ہے کہ ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے سماج میں عورتوں کو زیادہ سیاسی و معاشی حقوق حاصل ہیں اور ترقی پذیر میں کم۔سیاسی و معاشی حقوق کی ایک ساتھ بات میں یوں کر رہا ہوں کہ معیشت سیاسی اختیار میں اضافے اور سیاسی اختیار معاشی اختیار میں اضافے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
مگر مساوات تسلیم کرنے کی کوشش میں نہ تعلیمی و سماجی ترقی کام آر ہی ہے نہ ہی پسماندگی۔ثبوت کے لیے بین الاقوامی پارلیمانی یونین کی سالانہ رپورٹیں پڑھئے۔ ذہن کو خاصا افاقہ ہوگا۔
سال 2017ء کی پارلیمانی یونین رپورٹ کے مطابق خواتین کی سیاسی و پارلیمانی نمایندگی کے دو سو ممالک کے چارٹ میں پسماندہ افریقی ملک روانڈا سب سے آگے ہے۔وہاں کی پارلیمنٹ میں اکسٹھ فیصد ارکان خواتین ہیں۔دوسرے نمبر پر جنوبی امریکا کا ملک بولیویا ہے جہاں کی پارلیمنٹ میں تریپن فیصد اور کیوبا کی پارلیمنٹ میں اڑتالیس فیصد خواتین ہیں۔
مسلمان اکثریتی ممالک میں اگر سینیگال کی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمایندگی کا تناسب بیالیس فیصد اور تیونس میں اکتیس فیصد کے لگ بھگ ہے تو ترکی جیسے ترقی یافتہ مسلم ملک کی پارلیمان میں خواتین کا تناسب ساڑھے چودہ فیصد اور ایران پارلیمان میں ساڑھے پانچ فیصد ہے۔جب کہ خلیج میں فی کس آمدنی کے اعتبار سے امیر ترین ملک کویت اور قطر میں اگرچہ خواتین پر معاشی و سیاسی اعتبار سے پابندیاں نہیں مگر پارلیمانی نمایندگی کے اعتبار سے دو سو ممالک کی فہرست میں کویت ایک سو چوراسی اور قطر ایک سو نواسی ویں نمبر پر ہے۔البتہ متحدہ عرب امارات صنفی نمایندگی کے اعتبار سے بہتر اور اکیاسیویں نمبر پر ہے۔
سب سے بڑی سپر پاور اور کل عالم کو جمہوری مساوات کا درس دینے والا امریکا کانگریس کی سطح پر خواتین کی پارلیمانی نمایندگی کے اعتبار سے ایک سو ایک ویں، دوسری بڑی سپرپاور چین تہترویں، تیسری بڑی معاشی سپر پاور جاپان ایک سو پینسٹھویں، تیسری بڑی سیاسی سپر پاور روس ایک سو انتیسویں، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا ایک سو انچاسویں درجے پر ہے۔ان سے کہیں بہتر تو پاکستان ہے جو خواتین کی پارلیمانی نمایندگی کے عالمی چارٹ میں بانویں نمبر پر اور اس سے کہیں بہتر افغانستان ہے جو فہرست میں پچپن ویں نمبر پر ہے۔
جہاں تک کابینہ میں خواتین کی نمایندگی کا سوال ہے تو اس وقت دنیا کے لگ بھگ دو سو ممالک میں سے صرف پانچ (بلغاریہ، سویڈن، فرانس، نکاراگوا اور کینیڈا)کی مرکزی کابینہ میں پچاس فیصد یا زائد وزراء خواتین ہیں۔مسلمان ممالک میں انڈونیشیا کی کابینہ میں خواتین وزرا کی تعداد پچیس فیصد سے زائد ہے۔مگر بین الاقوامی پارلیمانی یونین کے جائزے کے مطابق عالمی سطح پر مجموعی لحاظ سے کابینہ کی سطح پر خواتین کی اوسط نمایندگی ساڑھے اٹھارہ فیصد اور عالمی پارلیمانی نمایندگی کا تناسب انیس فیصد بنتا ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی صنف کی ترقی کے لیے نہ صرف قانون سازی بلکہ قوتِ نافذہ بھی لازمی ہے اور یہ دونوں مقاصد پالیسی ساز اداروں میں قلیل صنفی نمایندگی سے حاصل نہیں ہو سکتے۔اس آئینے میں ہمارا جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان کیسا دکھائی دیتا ہے۔ اگر کچھ سیدھا ہے تو کریڈٹ کسے جاتا ہے اور کچھ ٹیڑھا ہے تو یہ آئینے کی ٹیڑھ ہے یا منہ ہی ٹیڑھا ہے۔اگلے مضمون میں مفصل احوال رہے گا۔