تحریر : محمد راشد
دفاع مضبوط ہونے کی صورت میں ہی قومیں اپنی ترقی کا سفر بلا خوف و خطر جاری رکھ سکتی ہیں۔ اگر کسی قوم کا دفاع مضبوط نہیں تو وہ یقینا خودمختار بھی نہیں ہوسکتا چنانچہ اسے کسی مضبوط ملک کا ماتحت رہتے ہوئے اپنی حفاظت کا سامان کرنا پڑتا ہے۔آج جبکہ جنگ اپنی جہتوں اور جدتوں کے اعتبار سے اپنے پر بے تحاشہ پھیلاچکی ہے تو کسی بھی قوم کے دفاع کے لئے محض ہتھیاروں کا ہونا کافی نہیں ہے۔ ہتھیار بلاشبہ اس ملک و قوم کو کسی بھی بیرونی جارحیت سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن نظریاتی و ثقافتی سرحدوں کی حفاظت ان سے ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ ہم آج کے دور میں اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جنگ اب تھرڈ جنریشن اور فورتھ جنریشن میں منتقل ہوچکی ہے۔ عالمی جنگی ماہرین کے مطابق جنگ اب صرف ہتھیاروں سے نہیں ہوتی بلکہ کسی قوم کے نظریات کو تباہ کرنا یا س قوم کے بنیادی نظریات پر شکوک و شبہات پیدا کرنا بھی جدید دور کی جنگوں کا اہم حصہ ہے۔ نظریاتی طور پر کسی ملک کو کمزور کرنا اور پھر اس قوم کو ان کے حکمرانوں یا سب سے بڑھ کر دفاع کی ذمہ دار فوج سے ان کو برگشتہ کرنا ایسی جنگوں کے بڑے مقاصد میں سے ایک ہوتا ہے۔
ہتھیاروں کے ساتھ اگرچہ بلاتفریق رنگ و نسل دشمن کے ہر طقبے کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن نظریات کی جنگ میں خصوصی ہدف طلبا ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے کہ جو آگے چل کر کسی بھی قوم کی باگ دوڑ سنبھالتا ہے۔ چنانچہ اگر اس طبقے کے نظریات پر ضرب لگائی جائے اور انہیں شکوک و شبہات کا شکار کردیا جائے تو ایسی صورت میں قومیں نہ صرف انتشار کا شکار ہوتی ہیں بلکہ افتراق بھی ان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ باشعور قومیں جہاں اپنے ہتھیاروں کو دفاع کے لئے تیار رکھتی ہیں وہیں اپنی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کا بھی بھرپور اہتمام کرتی ہیں۔
6ستمبر پاکستان میں یوم دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن ہمارے بزدل دشمن بھارت نے رات کی تاریکی میں چھپ کر لاہور پر حملہ کیا۔ بھارتی فوج کے جرنیلوں نے خواب دیکھے کہ وہ اگلے دن شام کی چائے لاہور جم خانہ میں پیئیں گے لیکن پاک آرمی اور ان کے پیچھے موجود پاکستانی قوم نے ان کے ناپاک عزائم کو کسی صورت مکمل نہ ہونے دیا بلکہ ایک انچ بھی دشمن ہماری سرزمین پر آگے نہ بڑھ سکا۔ ہماری بہادر مسلح افواج نے اپنے سے5گنا بڑے دشمن کو وہ دھول چٹائی کہ جس کی ساری دنیا گواہ ہے۔ چنانچہ ہمارا وطن اس وقت محفوظ و مامون رہا۔
آج جبکہ ہمارا وہی دشمن بھارت پھر سے سرحدوں پر کشیدگی کی صورت حال پیدا کررہا ہے اور آئے روز شہری آبادی کو نشانہ بنارہا ہے تو ایسی صورت میں بھی پاک فوج وطن عزیز کے دفاع کے لئے ہردم تیار ہے۔ پوری پاکستانی قوم کو اپنی فوج پر اعتماد ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن آج چونکہ جنگ محض ہتھیاروں تک محدود نہ ہے لہٰذا ہمارا دشمن بھی محض ہتھیاروں سے جنگ نہیں لڑ رہا بلکہ اس نے ہمارے نظریات اور ہماری ثقافت پر بھی حملہ کیا ہے۔ چنانچہ اسی حملے کے نتیجے میں ملک میں ایسی بحثوں کو فروغ دیا جارہا ہے کہ جن کے باعث ہمارے بنیادی نظریات کے متعلق ہمارے طلبا کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہمارے سامنے واضح ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد دوقومی نظریہ اور لاالہ الاللہ تھا۔ یعنی ہم ہندوستان میں الگ ملک اس لئے چاہتے تھے کہ ہم ہندوئوں سے الگ قوم ہیں۔ ان کا اور ہمارا مذہب ، دین، الہ، طریقہ ہائے عبادت، طرز ہائے بود و باش الغرض سب کچھ مختلف ہے۔ تو ہم کیونکہ ایسی قوم کے ساتھ مل کر رہ سکتے ہیں کہ جو ہمیں ہمارے دین پر بھی آزادی سے عمل نہیں کرنے دیتے۔
چنانچہ ہم نے اسلام کی عملی تجربہ گاہ کے طور پر ایک خطہ ارضی حاصل کیا لیکن بھارت نے ہمارے اسی بنیادی نظریے پر ضرب لگانے کی کوشش کی ہے۔ بدقسمتی سے بھارت کو ہمارے ہی ہاں سے کچھ میر جعفر و میر صادق مل گئے کہ جنہوں نے اس دشمن کی ہاں میں ہاں ملائی اور اس نظریے کے خلاف مہم کھڑی کردی کہ پاکستان میں دوقومی نظریہ کی تشریح غلط ہے۔ پاکستان کے مسلمان اور ہندوستان کے ہندو محض کچھ اختلافات رکھتے ہیں جبکہ ان میں اکثریت مماثل ہے چونکہ یہ دونوں قومیں ایک ہی ہیں۔ سو ان کے درمیان اس خونی لکیر یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان بارڈر کو ختم ہونا چاہیے اور پھر سے متحدہ ہندوستان ہونا چاہیے۔
اس نظریے کو پروان چڑھانے کے لئے میڈیا میں بحثیں کی گئیں اور بہت سی فلمیں اور ڈرامے خاص اس مقصد کے لئے تیار کئے گئے۔ چنانچہ آج ہم اس کا نتیجہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کا نوجوان طالب علم اپنے نظریات کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ اگرچہ دشمن کا یہ وار کامیاب نہ ہوا لیکن خالی بھی نہ گیا ہے کہ بہرحال اس نے کچھ نقصان ہماری قوم اور بالخصوص طلبا کا کیا ہے۔
آج جب ہم یوم دفاع کے پچاس سال مکمل ہونے پر دفاع وطن کا اعادہ کررہے ہیں تو ایسے حالات میں ملک کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ فریضہ طلبا سے بڑھ کر کوئی سرانجام نہیں دے سکتا۔ 1947 میں جب سندھ سے خبریں آنا شروع ہوئیں کہ وہاں پاکستان مخالف آوازیں بلند ہورہی ہیں توقائد اعظم محمد علی جناح نے طلبہ کے وفد سندھ کے مختلف علاقوں میں بھیجے جہاں انہوں نے لوگوں کی ذہن سازیاں کیں اور انہیں پاکستان کے ساتھ رہنے پر آمادہ کیا۔ چنانچہ آج کے طلبا کو بھی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینی چاہیے کہ وہ ملک کے نظریاتی دفاع کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔ قوم کے ثقافتی ورثے اور نظریات کو کسی صورت دشمن کی سازشوں کا شکار نہ ہونے دیں۔
جس طرح طلبا نے قیام پاکستان میں کردار ادا کیا تھا بعینہ آج طلبا کو نظریہ پاکستان کے دفاع کے لئے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ آج طلبا کو چاہیے کہ ملک میں ایک تحریک برپا کریں اور نوجوان نسل کو اس بات سے آگاہ کریں کہ پاکستان کن بنیادوں پر حاصل کیا گیا۔ دوقومی نظریہ کی حقیقت قوم کے سامنے بیان کرنے کی ضرورت ہے اور اس فریضے کو طلبا سے بڑھ کر کوئی ادا نہیں کرسکتا۔چنانچہ ایسی صورتحال میں کہ جب نظریاتی سرحدوں پر دشمن تابڑ توڑ حملے کررہا ہے تو اتنی ہی شدت سے جواب کی ضرورت ہے۔ طلبا تعلیمی اداروں میں اور علاقوں میں لوگوں کی ذہن سازی کریں۔ ان کے سامنے دشمن کی حقیقت کو واضح کریں۔
یوم دفاع کے50برس مکمل ہونے پر اس بات کا اعادہ کریں کہ ہم ملک کی نظریاتی سرحدوں کا بھرپور دفاع کریں گے اور اسے کسی بھی صورت دشمن کے نظریاتی حملوں کا نشانہ نہ بننے دیں گے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
تحریر : محمد راشد