تحریر : انجینئر ذیشان وارث
پھل ہو، پھول یا کوئی درخت، اس کے ذائقے، خوشبو اور بناوٹ کا انحصار ان باتوں پر ہوا کرتا ہے کہ بیج کس معیار کا استعمال ہوا، زمین کتنی زرخیز تھی یاجس جگہ وہ بیج بویاگیا وہاں کے موسمی حالات کیاتھے۔ انہی عناصر ترکیبی کاکمال ہے کہ آنکھ دیکھتی ہے کہ دیودار کاتناور درخت پہاڑ کا سینہ چیر کر ایستادہ ہے اوربے آب وگیاہ صحرا میں کیکٹس زندگی کے ساتھ ناطہ جوڑے ہوئے ہے۔ علاوہ ازیں تجربہ اس بات کابھی شاہد ہے کہ کبھی کسی نے پیازبوکرگلاب کاشت نہیں کیے…بالکل اسی طرح کسی قوم کی تشکیل میں مذہب،سیاست،تہذیب اور سماج کے متعلق اس قوم کے نظریات،اس کے تہذیبی و معاشرتی خدوخال کے معمار ہوا کرتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ اس کے مستقبل کے کردار کی پیشین گوئی بھی کرتے ہیں۔ گویا وطن،ملک یاقوم نظریے کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں لیکن نظریہ ہے کیا؟ ماہرلسانیات ویبسٹر(Webster) کے مطابق ”کسی تہذیبی،سیاسی یا معاشرتی تحریک کاعام منصوبے یا لائحہ عمل بارے علمی بیان نظریہ کہلاتاہے۔” (نظریہ پاکستان۔ حمید رضا صدیقی) نظریہ کسی قوم کے اجتماعی اورانفرادی رجحانات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان راستوںکو متعین کرتاہے جن پر چل کر اس قوم نے اپنے مستقبل کی صورت گری کرنا ہوتی ہے۔لہٰذا نظریہ قوموں کی زندگی میںانتہائی اہمیت کاحامل ہواکرتاہے۔
یہ نظریہ کسی فرد کی فکراور سوچ ہوتی ہے جو اسے ایک قطعہ ارض پرثابت قدم رکھتی ہے لیکن جب نظریہ دم توڑجائے اورفکر بکھرجائے تووطن کی حیثیت زمین کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ بانیان پاکستان نے جب پاکستان کامطالبہ کیاتواس کی بنیاد دوقومی نظریہ یا نظریہ اسلام پر رکھی جسے نظریہ پاکستان کہاجاتاہے کہ”اسلام کاپیش کردہ سیاسی،معاشرتی اورتہذیبی لائحہ عمل ہی مسلمانانِ برصغیر کا دستور العمل اورنظریہ حیات ہے لہٰذا یہ ہندؤوں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے،انہیں ایک علیحدہ وطن کی ضرورت ہے جس کی بنیاد جغرافیائی حدبندیوں پرمشتمل”قومی ریاست” کے بجائے نظریہ اسلام پرقائم کردہ ایک”نظریاتی ریاست” پرہو جہاں وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں بسرکرسکیں۔” یہ وہ بیانیہ ہے جسے برصغیر کے مسلم رہنماؤں کی طرف سے باربار نہ صرف دہرایاگیا بلکہ وہ اس کے ساتھ دلائل کے میدان میں بھی اترے اور اس کابھرپور دفاع کیا۔بانیٔ پاکستان محمدعلی جناح فرماتے ہیں: ”ہم پاکستان انگریزوں کے ظلم کی وجہ سے حاصل کرنا چاہتے ہیں نہ ہندوکی مکاری کے ڈرسے، بلکہ ہم پاکستان اس لیے حاصل کرناچاہتے ہیں کہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔”(علی گڑھ یونیورسٹی میں خطاب۔ 1944ئ) پاکستان کے قومی شاعر،مفکر اسلام اور عظیم فلسفی علامہ اقبال اپنے مشہور خطبہ الٰہ آباد میں فرماتے ہیں:
”اسلام کا عقیدہ ہے کہ مذہب کوفرد اورریاست کی زندگی میں بے انتہااہمیت حاصل ہے۔”اسی خطبہ میں آگے چل کر فرماتے ہیں ”لہٰذا مسلمانوں کا مطالبہ’ کہ برصغیر میں ایک مسلم ہندوستان (اس وقت تک پاکستان کا نام تجویز نہیں ہواتھا) قائم کیاجائے بالکل حق بجانب ہے۔” یہمطالبہ کہ برصغیرمیں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کی بنیاد نظریہ اسلام ہونی چاہئے، مذکورہ بالادونوں راہنماؤں کاہی نہ تھا بلکہ ہرمسلمان کایہی مطالبہ تھا ،سوائے ان چیدہ چیدہ راہنماؤں کے جو اسلام کی اصل روح سے ناواقف رہتے ہوئے جغرافیائی حدبندیوں پرمشتمل ایک قومی ریاست کے قائل تھے اور نظریہ پاکستان کومحض سیاسی مسئلہ سمجھتے تھے۔ مسلمان رہنماؤں کے سختی سے نظریہ پاکستان پر کاربند رہنے کی دوبنیادی وجوہات تھیں۔ -1 قیام پاکستان -2 استحکام پاکستان یہ بات ان عظیم راہنماؤں پراظہرامن الشمس تھی کہ نظریے کے بغیر پاکستان کا قیام ممکن تھا، نہ اس کا استحکام۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سخت ترین آزمائشوں اور مشکلات کاسامنا کرنے کے باوجود اس بیانیے کوفروغ دیاکہ مسلمان اگر ہندؤوں سے علیحدہ ہو کر ایک نئی مملکت قائم کرناچاہتے ہیں تواس کی بنیاد اسلام ہونا چاہیے، کیونکہ یہ وہ واحدنکتہ ہے جس پرمختلف رنگ،نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والے مسلمان اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ محمد علی جناح فرماتے ہیں:”وہ کون سارشتہ ہے جس کی وجہ سے مسلمان جسد واحد ہیں،وہ کون سی چٹان ہے جس پراس امت کی بنیاد استوار ہے،وہ کون سالنگرہے جس پرا س امت کی کشتی محفوظ کی گئی ہے ،وہ رشتہ،وہ لنگر،وہ چٹان اسلام ہے۔” (1943ء کو کراچی میں بانیٔ پاکستان کا خطاب) اسلام یانظریہ پاکستان کے بغیر نئی مملکت کاقیام ناممکن تھااور یہ نکتہ ”نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے” کاپہلاحصہ ہے،اس ضمن میں جوبات اس چیزپراستدلال کرتی ہے کہ ”نظریہ پاکستان”ہی قیام پاکستان کاسبب ہے،وہ یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے بعد پہلی ریاست جس کے لیے جغرافیہ کو مذہب کی بنیاد پرتقسیم کیاگیا ،پاکستان ہے۔ برصغیرکے دواہم صوبوں پنجاب اور بنگال کو خالص مذہبی بنیادوں پر ہند و پنجاب، مسلم پنجاب اور ہندوبنگال ،مسلم بنگال میں تقسیم کیاگیااور یہ بیسویں صدی کاحیرت انگیز ترین واقعہ ہے۔
یہی وہ کارنامہ ہے جس پرامریکی مصنف سٹینلے والپرٹ اپنی کتاب”جناح آف پاکستان” کے دیباچے میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتاہے کہ”جناح وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کارخ موڑ دیا۔” یوں 1945-46ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے فتح حاصل کی اور حصول پاکستان کی منزل کو پالیا۔گویا ”نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے” کاپہلاحصہ یعنی اسلامی پاکستان کاقیام تکمیل کوپہنچ گیا۔ ”نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے” کا دوسرا نکتہ ہے کہ جس طرح پاکستان کاقیام نظریہ پاکستان کا مرہون منت ہے ،اسی طرح ”استحکام پاکستان” بھی نظریہ پاکستان میں ہی مضمرہے۔ ہم اس بات سے واقف ہوں یا نہ ہوں لیکن ہمارا دشمن اس بات سے بخوبی واقف رہا اور اب بھی ہے۔ چنانچہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی نظریہ پاکستان بارے شکوک وشبہات پیداکرنے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن بیدار مغز قیادت ان سازشوں کا پوراپورا ادراک رکھتی تھی۔ چنانچہ بانیٔ پاکستان نے 25جنوری 1948ء میں فرمایا: ”یہ کہاجاتاہے کہ پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ نہیں ہوگی،یہ شرارتی عناصر کاپروپیگنڈہ ہے ۔میں انہیں کہتاہوں کہ وہ اس سے بازآجائیں۔” سوچنے کی بات ہے کہ کیاہم بھی ایسے شرارتی عناصر سے باخبرہیں؟ اس کے بعدلسانیت کے تعصبات کے خلاف قائد نے21مارچ 1948ء کو اپنے پیغام میں کہا:”میں آپ کو پنجابی،سندھی ، بنگالی،بلوچی اور پٹھان کہنے سے منع کرتاہوں۔ آخر یہ کہنے میں کیالطف ہے کہ میں سندھی،پنجابی، بلوچی یا پٹھان ہوں ۔ہم صرف مسلمان ہیں۔”
قائداعظم کی وفات کے بعد بھی ان کے جانشینوں نے نظریہ پاکستان سے صرف نظرنہ کیابلکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام کے نام پربننے والے اس ملک کا استحکام نظریہ پاکستان سے ہی وابستہ ہے۔ اس ضمن میں 12مارچ 1948ء کو ”قراردادِمقاصد” منظورکی گئی جس میںاس ملک کواسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے پر زور دیاگیا اور یہ قرارداد مقاصد اب آئین ِمیں بطورِ دیباچہ شامل ہے۔ ”اسی سال مسلم لیگ کے صدر چودھری خلیق الزماں نے اعلان کیاکہ پاکستان جملہ مسلمان ممالک کو اسلامائزیشن کے عمل میں شامل کرلے گااور ”پین اسلامک” (کل اسلامی) تشخص تشکیل دیاجائے گا۔اسلام کی بین الاقوامیت کوفروغ دینے کے لیے حکومت پاکستان نے کراچی میں”مسلم کانفرنس” کاانعقادکیا اور”موتمر عالم الاسلامی” نامی تنظیم کی تشکیل کی گئی۔نومبر1949ء میں 18مسلم ممالک نے کراچی میں”عالمی اسلامی اقتصادی کانفرنس منعقدکی۔” (پاکستان:فوج اور مسجد کے درمیان ۔حسین حقانی) مذکورہ بالا تمام اقدامات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ہمارے راہنما اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ پاکستان کی بقاء نظریہ پاکستان سے منسلک رہنے میں ہی ہے۔ یہ بات صرف تصوراتی حدتک ہی درست نہیں بلکہ اپناطبعی وجودبھی منواچکی ہے۔ تاریخ اس بات کی شاہدہے کہ جب چندراہنماؤں نے نظریہ پاکستان کو پس پشت ڈال کر لسانیت اورعلاقائیت کی سیاست کواپناشعار بنایا توپاکستان کی بقاخطرے میں پڑگئی۔ 1971ء کاسانحہ سقوطِ ڈھاکہ نظریہ پاکستان سے فرار کی سزاہی تھاکہ ہماراایک بازوہم سے جداہوگیا۔ لسانیت اورفرقہ واریت کاجوبیج اس وقت ملک میں بویا گیا اس کی بدولت ”سندھو دیش ”اور ”آزادبلوچستان” کے نعرے ایجادہوئے۔ ان نعروں نے نہ صر ف پاکستان میں افراتفری کاسماں پیداکیا بلکہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو سازشیں کرنے کے مواقع بھی فراہم کیے۔ انہی سازشوں کے نتیجے میں بلوچستان میں چندمفاد پرستوں کے ہاتھوں ناپا ک دشمن نے بغاوت برپاکی ہوئی ہے۔ اگر ہمارے یہ نادان دوست علاقائیت اور لسانیت کی روش چھوڑ کرنظریہ پاکستان کواپنی سیاست کی بنیاد بناتے تو ہندو بنئے کوسازش کرنے کی جسارت نہ ہوتی مگر وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا صرف یہ فتنہ ہی پاکستان کی بقاء کو خطرے میں ڈالے ہوئے نہیں بلکہ الحاد،سیکولرازم اور”روشن خیالی” جیسے نت نئے فتنے بھی ملک کی نظریاتی اساس کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل کو اسلام سے دور کرکے انہیں غلیظ مغربی تہذیب کادلدادہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے ذرائع ابلاغ اوراین جی اوز کو استعمال کیا جاتاہے۔ جن کے ذریعے لاکھوں مسلمانوں کے قاتل، خونی بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانے اور کشمیر میں اس کے مظالم پرپردہ ڈالنے کے لیے ”امن کے تماشے” لگائے جاتے ہیں اور ”خیرسگالی” وفود کاتبادلہ کیاجاتاہے جو قوم کو بتاتے ہیں کہ ہمارے درمیان توایک ”لکیر” آگئی ہے جس نے ہمیں جدا کردیا۔ورنہ ہماری ثقافت اورتہذیب تو ایک ہی ہے۔ہم ہی تو ”گنگاجمنا” تہذیب کے وارث ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر عساکر پاکستان کوکمزور کرنے اور بھارتی جارحیت کی طرف سے ان کی توجہ ہٹانے کے لیے ملک میں تکفیر کافتنہ کھڑاکیاگیا۔
اسلام سے محبت رکھنے والے کچھ نوجوان نام نہاد”مجاہدین” کے ہاتھوں اپنوں کے ہی خلاف استعمال ہوئے۔”ایمان” تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے جھنڈے تلے لڑنے والی افواج کے خلاف کفر کے ”انڈین میڈیا” فتوے لگا کربقائے پاکستان کو خطرے سے دوچار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان سب فتنوں سے چھٹکارے کاایک ہی حل ہے کہ قوم کو نظریہ پاکستان پراسی طرح اکٹھاکیاجائے جس طرح یہ قوم سرسٹھ سال پہلے بابائے قوم کی قیادت میں ”پاکستان کامطلب کیا؟ لاالٰہ الااللہ” کے نعرے پر اکٹھی ہوئی۔نوجوان نسل کو یہ باو رکراناہوگا کہ دشمن کے ساتھ ہماری سرحد صرف ”لکیر” نہیں بلکہ آگ کا وہ دریاہے جسے ہمارے اجداد نے لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر عبور کیا۔ ہمارے قابل تقلید کرداربھارت کے فلمی ہیرو نہیں بلکہ مجاہدین اسلام ہونے چاہئیں۔ انہیں اس بات کااحساس دلانا ہوگا کہ ”آپ نے ہی نہ صرف اس ملک کی حفاظت کرنی ہے بلکہ ہندوستان کے ظلم میں جکڑے کشمیریوں کو آزاد کروا کر نظریہ پاکستان کی تکمیل بھی۔” علاوہ ازیں روس،امریکہ اوربھارت جیسے اسلام کے دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے والی افواج پاکستان کے خلاف بپافتنہ تکفیر کامقابلہ بھی نظریہ پاکستان کی”تلوار” سے ہی کرناہے اور نوجوانوں کو یہ باور کرانا ہے کہ ہمارے عساکر پاکستان کے محافظ ہیں جو عالم اسلام کاواحد سہارا ہے۔ گویا وہ نکتہ جس پرپوری قوم اکٹھی ہوکر دشمن کامقابلہ کرسکتی ہے، ”نظریہ پاکستان ” ہے اور یہی ”بقائے پاکستان” کی ضمانت ہے۔ کیونکہ پاکستان میں رام راج چل سکتاہے نہ سامراج ،یہاںچلے گا تو صرف اسلام راج !
بقول اقبال
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں
تحریر : انجینئر ذیشان وارث