تحریر : پروفیسر مظہر
وزیرِاعظم پاکستان میاں نواز شریف نے بیدیاں روڈ لاہور میں انسدادِ دہشت گردی فورس کی پہلی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوم ،فوج اور ادارے متحد ہیں اور دہشت گردوں کے عبرت ناک انجام کاوقت قریب آگیا۔اُنہوںنے فرمایا ”دہشت گردی کے خلاف جس طرح سیاسی جماعتوں ،صوبائی حکومتوں اورافواجِ پاکستان نے کردار اداکیا وہ قابلِ ستائش ہے اورماضی میںاِس کی مثال نہیںملتی ”۔ یہ بجاکہ دہشت گردی کے خلاف حکومت اورفوج ایک صفحے پرہے مگر۔۔۔ سیاسی جماعتیں ؟۔نوازلیگ کی حلیف ،جمعیت علمائے اسلام نے توپہلے دن سے آنکھیںدکھانی شروع کردیں ۔اُس نے اکیسویںترمیم کے حق میں ووٹ دیانہ وہ اِس ترمیم کوتسلیم کرتی ہے ۔یہی حال جماعت اسلامی کا بھی ہے ، وہ دہشت گردی کے خلاف ایکشن کی توبھرپور حمایت کرتی ہے لیکن اکیسویں ترمیم سے الگ تھلگ کھڑی نظرآتی ہے ۔محترم عمران خاںنے دہشت گردی کے خلاف ایکشن کی نہ صرف بھرپور حمایت کی بلکہ ملکی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنادھرنابھی ختم کردیا لیکن عملی طورپر وہ آج بھی دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج اورسڑکوں پر آنے کے لیے تیار ۔ایم کیوایم کراچی میںہونے والے ہرپولیس اور رینجرزایکشن سے نالاںاور سندھ حکومت کو موردِالزام ٹھہراتی ہوئی ۔اِس منظرنامے کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتاہے کہ حکومت اورفوج دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے یکسو ہے اورقوم بھی لیکن دیگرسیاسی جماعتوںکی ”وہی ہے چال بے ڈھنگی ،جو پہلے تھی سو اب بھی ہے”۔
ہماری سیاسی اشرافیہ دہشت گردی کے خلاف تین بار اکٹھی ہوئی اوراعلیٰ عسکری قیادت بھی اِس مشاورت میںشامل رہی ۔عسکری قیادت تو ہر قسم کی قربانی کے لیے یکسوتھی لیکن سیاسی اکابرین کے چہروںپر بیزاری ، تھکاوٹ اوربناوٹ عیاں ۔ہرسیاسی جماعت نے میڈیاکے سامنے یہی رونارویا کہ وہ بحالتِ مجبوری ملٹری کورٹس کوقبول کررہی ہے ۔ جمہوریت بچانے کی فکرمیں غلطاںاِن بزرجمہروں سے سوال کیاجا سکتاہے کہ کیااُن کی اپنی جماعتوں میں جمہوریت ہے؟۔اکیسویںترمیم کی سینٹ میںمنظوری پر پیپلزپارٹی کے سینیٹررضاربانی آبدیدہ ہوگئے۔ اُنہوںنے فرمایاکہ ووٹ پیپلزپارٹی کی امانت تھا جو دے دیالیکن ضمیرپر ہمیشہ بوجھ رہے گا ۔سوال مگریہ ہے کہ محترم رضاربانی اُس وقت آبدیدہ کیوںنہیں ہوئے جب ایک آمرکے این آراو کی چھتری تلے بی بی شہید پاکستان تشریف لائیں ؟۔
وہ جانتے ہیںکہ پیپلزپارٹی میں موروثیت ہے جمہوریت نہیں،پھر موروثیت کے خلاف بات کرنے سے پہلے اُن کی زبان پرلکنت کیوںطاری ہوجاتی ہے؟ ۔بلاول زرداری نے ٹویٹ کیاکہ پیپلزپارٹی نے اکیسویں ترمیم کے حق میںووٹ دے کراپنی ناک کٹوادی ۔یہ ناک اُس وقت کیوںنہیں کٹی جب بلاول زرداری کوبیٹھے بٹھائے ”بٹھو”بنا دیاگیا ۔یہ ناک اُس وقت بھی سلامت رہی جب ”غضب کرپشن کی عجب کہانیاں”منظرِعام پر آتی رہیں ۔یہ ناک تب بھی سلامت رہی جب میموگیٹ سکینڈل کے مرکزی ملزم کوپہلے ایوانِ صدر اورپھر وزیرِاعظم ہاؤس میں پناہ دی گئی اوریہ ناک اُس وقت بھی سلامت رہی جب ایک طرف تونوازلیگ کے ساتھ ”میثاقِ جمہوریت”پر دستخط کیے جارہے تھے اوردوسری طرف آمر پرویزمشرف کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں واہ ! کیابات ہے پیپلزپارٹی کی اِس موم کی ناک کی کہ جس کوجب ،جہاںاور جیسے موڑلیں ،وہ سلامت ہی رہتی ہے لیکن آج جب قوم پردَورِ ابتلاء ہے اورقوم دہشت گردی کے خلاف یکسو تو پیپلزپارٹی کی بیٹھے بٹھائے ناک کٹ گئی۔
ایم کیوایم کے الطاف بھائی کہتے ہیںکہ اگرپورے ملک میں مارشل لاء نہیں لگانا تو کم ازکم سندھ کوہی فوج کے حوالے کردیا جائے تاکہ شہرِقائد کوبھتہ خوروں ،قبضہ گروپوں اورٹارگٹ کلرز سے پاک کردیا جائے ۔الطاف بھائی شایدیہ بھول چکے کہ یہ سارے نخل اُنہی کی نرسری میںاُگے اور اُنہی کی کاوشوںسے آج ایسے تن آور درخت بن چکے جنہیںجڑ سے اکھاڑنا اگر ناممکن نہیں توانتہائی مشکل ضرورہے ۔یہ بجاکہ اب کراچی میںبھی دہشت گردوںنے جابجا ٹھکانے بنا لیے ہیںلیکن نو گوایریاز ،عقوبت خانے اورٹارگٹ کلنگ تواُس دور کی پیداوارہیں جب الطاف بھائی نے اپنے کارکنوںکو گھریلوسامان بیچ کر اسلحہ خریدنے کاحکم دیا ۔ایم کیوایم (حقیقی) کے کارکنوںکا قتلِ عام بھی تاریخ کا حصہ ہے اور چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی کراچی آمدپر بہائے گئے خون کے دھبے بھی ابھی مٹ نہیںپائے۔اسلحے سے بھرے ہزاروںکنٹینربھی اسی دور میںگُم ہوئے جب ایم کیوایم کے بابرغوری پورٹس اینڈشپنگ کے وزیرتھے ۔”مہاجر لبریشن آرمی ”کی گونج بھی کراچی ہی میںسنائی دی
وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد کایہ مضحکہ خیزبیان بھی سامنے آیاکہ مہاجرلبریشن آرمی کی رپورٹس تواُن تک پہنچیں لیکن یہ رپورٹس سپریم کورٹ میں داخل کروانے کے لیے نہیںتھیں ۔یہ بھی کوئی سربستہ رازنہیں کہ 90 کی دہائی سے پہلے ہرکسی کواپنی آغوشِ محبت میں سمیٹنے والے روشنیوںکے شہرکراچی کو لسانی ،نسلی اورگروہی منافرتوںمیں کس نے تقسیم کیا؟۔ خونم خون کراچی کی بربادیوںکے افسانے سب سے پہلے ایم کیوایم نے لکھے پھر پیپلزپارٹی اوراے این پی بھی اِس میںشامل ہوگئیں۔ایک کراچی کے اندر کئی کراچی بن گئے ،جگہ جگہ بابا لاڈلااور عزیربلوچ جنم لینے لگے ۔جب سیرکو سواسیر مِل گیا تو الطاف بھائی نے بھی کراچی کوفوج کے حوالے کرنے کامطالبہ کردیا ۔ہم تویہی کہہ سکتے ہیں کہ
اب کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اِس طرح تو ہوتا ہے ، اِس طرح کے کاموں میں
کچھ قلم فروشی کادھندا کرنے والوںکو چھوڑکر سبھی متفق تھے کہ پیپلزپارٹی کے دورِحکومت میں جنابِ زرداری کامفاہمتی رنگ اُن کی مجبوریوںکا عکاس تھا اور مفاہمتی پالیسی” کرسی” بچانے کی تگ ودو البتہ میاںنوازشریف کے سامنے ایسی کوئی مجبوری نہیںکیونکہ اُنہیں پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل ہے ، پھربھی وہ پارلیمنٹ کوساتھ لے کرچلنا چاہتے ہیں جسے خالصتاََ جذبۂ تعمیرکہا جاسکتاہے ۔نوازلیگ بھی متوازی عدالتی نظام کے ہرگز حق میںنہیںاور اقتدارکے ایوانوںسے اِس کا برملا اظہاربھی کیا جاچکا لیکن جب حالات اِس نہج پرپہنچ جائیں کہ زندگی اورموت میں کسی ایک کا انتخاب مقصود ہو توپھر طارق بن زیادکی طرح سفینے جلانے ہی پڑتے ہیں ۔ ہم نے چاردہائیاں ”نظریۂ ضرورت ”کے تحت گزاردیں ۔آمروںنے اپنی آمریت کواستحکام بخشنے کے لئے ہمیشہ اعلیٰ عدلیہ کو ”نظریۂ ضرورت”کے لیے استعمال کیا ۔اب اگر قوم کواسی ”نظریۂ ضرورت”کی ضرورت آن پڑی تو اعلیٰ عدلیہ ایک سول حکومت کو دو سال کے لیے ”ملٹری کورٹس”کی اجازت دے دے تواِس میںہرج ہی کیاہے۔
تحریر : پروفیسر مظہر